سنگر میگزین کی آٹھ سالہ پُر کٹھن سفر
تحریر: عابد جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں قومی آزادی کی جنگ اپنی نشیب فراز سے ہوکر جاری و ساری ہے. اس جنگ کو بلوچستان کے وارث بلوچ قوم نے شروع کی ہے اور جنگ کی آخری منزل آزاد بلوچستان ہے. قابض ریاست اس جنگ میں بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں ہر محاذ پر شکست کھاکر اب ایک ایسا رویہ اختیار کرچکا ہے جس سے نہتے بلوچوں کا مقابلہ بھی گولی اور قید و بند, ٹارچرسیلوں سے کررہا ہے. دشمن کی سب سے بڑی شکست یہ ہے کہ الفاظ کا جواب بھی گولی سے دیتا ہے. شکست خوردہ ریاست اب اتنا حواس باختہ ہوا ہے کہ دنیا کی جنگی قوانین کو رد کرکے باؤلے کتے کی طرح ہر ایک کو کاٹ رہا ہے. بلوچ قوم اپنی تہذیب اور ہزاروں سالہ تاریخ کو مدنظر رکھ کر ایک قوم کی حیثیت سے جنگی قوانین کے تحت جنگ لڑ رہی ہے. قابض ریاست کو ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دے رہا ہے. بندوق کی گولی سے لیکر قلم کی نوک تک دشمن کا مقابلہ کر رہا ہے. لیکن دشمن کی شکست فاش یہاں سے نظر آتا ہے کہ آواز, قلم, میڈیا, بحث مباحثہ, احتجاج, سفارت اور دوسرے غیر مسلح سرگرمیوں کا جواب گولی سے دیتا ہے. ہر جگہ, ہر شعبہ, ہر محاذ پر اپنا دفع گولی سے کرتا ہے. کیونکہ یہ ایک غیر فطری ریاست ہے. اس کی وجود ایک کالونی کی حیثیت سے بنی. شکست خوردہ ریاست کی پاس ایک طالب علم کے شعور کا جواب, ایک وکیل کی وکالت کا جواب, ایک دانشور کی بحث مباحثے کا جواب, ایک سیاسی لیڈر کی سیاسی ڈائیلاگ کاجواب, ایک محب وطن شاعر کی شاعری کا جواب, ایک پُرسوز گلوکار کی ترنم کا جواب, ایک افسانہ نگار, ناول نگار کی خیالات کا جواب صرف گولی ہے. اس کے پاس کوئی اور چیز نہیں. یہ ہے اس کی شکست.
ان حالات میں بھی بلوچ قوم اس غیر تہذیب یافتہ ریاست سے اپنی قومی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے. بلوچ سرمچار اس کو گولی کا جواب ہر وقت, ہر جگہ پر دے رہے ہیں. پہاڑوں میں, صحراؤں میں, دشت و بیاباں میں, جنگلوں میں, ہر علاقہ, گلی کوچہ میں بلوچ سرمچار تاک میں بیٹھے دشمن کا مقابلہ کر رہا ہے. جہاں بلوچ سرمچار اپنی بندوق سے وطن کا دفاع کررہا ہے وہاں ادیب, دانشور, لکھاری,شاعر, مورخ اور صحافی اپنے قلم سے اپنے شعبے اور زمہ داریوں کو قومی جذبہ اور خندہ پیشانی سے ادا کررہے ہیں.
بلوچستان کی جنگ آزادی میں سن 2000 کے بعد جو تیزی دیکھنے کو ملی یہ یقینا آزادی کی حقیقی جنگ کی شکل ہے جو آج تک جاری ساری ہے. اس 9 سالہ جنگ نے بلوچ قوم کے ہر بچہ کے دل میں سرزمین کی آزادی کا جذبہ اورمحب بسایا ہے. اور اب قومی شعور اور فکر سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں.
ادارہ سنگر میڈیا گروپ کے کاوشیں اس جنگ میں تاریخ کی ایک باب بن گئی ہیں. سنگر میڈیا نے جس جرائت, ہمت اور بہادری سے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھایا وہ قابل تعریف ہیں اور اس کے کردار بلوچ قوم کے اس قومی جنگ میں روشن چراغ کے مانند ہے. سنگر آج سے 8 سال قبل جس صحافتی فرائض کا آغاز وہ قومی جدوجہد کی ایک انتہائی اہم محاذ کو کوّر کردیا. اس سرزمین پر رونما ہونے والے جنگی حالات, قابض کی ظلم و ستم, قومی بیداری, شعوری تربیت, اپنے لوگوں میں علم و زانت کی دلچسپی, شاعری سے رغبت, نوشت کا شوق, بین الاقوامی حالات سے باخبر, جہد کاروں کے بہادری کے قصے, بچے بچے کے دل میں قومی جوش و جذبہ پیدا کرنا, جنگ میں قربانی دینے والے ہستیوں کے تاریخ قوم و دنیا کے سامنے لانا, ریاست کی غیر انسانی رویوں کا انسانی حقوق کے اداروں کو آگاہ کرنا جیسے کردار سنگر میڈیا پچھلے 8 سال سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہے. سنگر میگزین کی ایک بہت بڑی کامیابی آج یہ نظر آرہا ہے بہت سے نوجوان قلم اٹھاکر الفاظ کو جوڑ توڑ کر اپنے زانت کے بساط کے مطابق سرزمین سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں.
سنگر میگزین، چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ اور دیگر اسٹاف ممبران کی سخت محنت اور جدوجہد سے 8 سال کا ایک کامیاب پُرکٹھن سفر طے کرتے ہوئے ایک نئی امید, بلند حوصلوں اور ایک نئے جذبے کے ساتھ اگلے سال میں قدم رکھ رہے ہیں. یقینا سنگر میگزین نے اس قومی آزادی کی جنگ میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا ایک باب بن چکا ہے. اس میگزین کے صفحوں پر ہمیشہ بلوچ شہداء کے بہادری کے واقعے ان کے خوبصورت تصاویر کے ساتھ, بلوچ قوم میں قومی بیداری اور جذبہ دینے والے آرٹیکلز, قومی جنگ کے حوالے سے دنیا کو اگاہی دینے والے مضامین چھپتے ہیں. قومی جنگ کی ایک بہت بڑی تاریخ اس میگزین کے شماروں میں محفوظ کردی گئی ہے. مجھے امید ہے سنگر جیسے ادارے اس 19 سالہ نئی انداز میں جاری قومی جنگ کی تاریخ کو کبھی گم اور مٹنے نہیں دے گا.
سنگر میگزین سے ہمیں بلوچستان کی حقیقی حالات, واقعات سے آگاہی ملتا ہے. ہر شمارے میں چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے بلوچستان کے کونے کونے سے خبریں جمع کرکے پاھار کے نام سے ایک دستاویزی اور تجزیاتی رپورٹ شائع ہوتی ہے. اس رپورٹ میں قابض ریاست کی نہتے آبادی پر ظلم وستم, آپریشن, لوگوں کو لاپتہ اور عورتوں, بچوں اور بوڑھوں پر تشدد کرنا, گھروں کو جلانا, تیار فصلوں کو جلانا جیسے ظلم کے داستان اور جبر پڑھنے کو ملتے ہیں. اس میگزین میں انتہائی قابل لکھاریوں کے مضامین, شعراء کے اشعار, تجزیہ نگاروں کے تجزیے اور دیگر مفید معلومات شائع ہوتے ہیں. دنیا کے انقلابی لیڈرز اور جنگجوؤں کے آپ بیتی اور ان پر لکھی گئی کتابوں کے تراجم اس میگزین کی زینت بنتے ہیں. قومی اور بین الاقوامی حالات اور واقعات سے آگاہی اور ان پر تجزیے بھی اس میگزین کے بدولت پڑھنے کو ملتا ہے.
لیکن ایک سال سے بہت بڑی کمی سنگر کے قارئین کو محسوس ہورہا ہے. قومی اور بین الاقوامی حالات و واقعات پر انتہائی باریک بینی اور شعوری انداز میں تجزیہ کرنے والے دو بڑے نام میراث زروانی اور بجار بلوچ کے کالم نظر نہیں آرہے ہیں. یہ ایک بہت بڑی کمی ہے. ان دو بڑے قابل تجزیہ نگار لکھاریوں کے مضامین اور تجزیوں سے ہماری گفتگو اور بحث و مباحثے میں جان آتی تھی. مطلب ہمیں ان کے مضامین سے معلومات ملتا تھا جنہیں ہم اپنے گفتگو کے زینت بناتے تھے. لیکن اب ایسے تجزیے ہمیں نہیں مل رہے. مجھے امید ہے میرا یہ آرٹیکل سنگر میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر اور دیگرمنتظمین تک پہنچے گا اور وہ یہ کمی دور کریں گے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔