راشد، میرا حوصلہ
تحریر: فریدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اک سال بیت گئی آج تم سے بات کیئے ہوئے، یوں تو ہر دن تم سے محو گفتگو ہوتی ہوں، پر سامنے تمہاری وہ مسکراہٹ، وہ باتیں، وہ محبت برا لہجہ سنائی نہیں دیتا یوں تو تمہاری آواز ہر طرف گونجتی ہے پر جب میں دوڑی وہاں پہنچتی ہوں تو کچھ انجان، بے رحم تمہارا چہرہ ڈهانپ کر مجهے بے دید کرتے ہیں، میں چیختی ہوں چلاتی ہوں پر سامنے کهڑی دیواروں کے اس پار مجهے کوئی نہیں سنتا، ہاں کوئی بهی نہیں نہ اپنے نہ پرایا نہ خیر خواہ نہ بدخواہ، کوئی بهی میری صدا نہیں سنتا اور نہ ہی آتا ہے جیسے تم میرے ہر صدا پر پہنچ جاتے تھے۔
تمہارے اس ادا اس درد دلی کو دیکھ کر شاید دور کسی سڑک کے نکڑ سے تمہیں مجھ سے چهین لیا گیا ، فقط اس لئے تم زبان رکهتے ہو، تم لڑنے کی ہمت رکهتے ہو تم ظلم و جبر و نا انصافی کے خلاف بول سکتے ہو، تمہیں قفس کے نظر کردیا گیا تمہیں زنجیروں میں جگڑ لیا تاکہ تم نہ بول پاؤ تمہاری آواز کو خاموش کرنے کی ہر طرح کوشش کررہے ہیں تاکہ تم نہ بولو، خاموش رہو، تمہاری آواز سے وہ کتنے خوفزدہ ہیں۔
کیا ہے تمہاری آواز میں؟ کیا ہو تم؟ کہ اتنے سارے خدا تمہاری آواز کے پیچھے پڑے ہیں،کون ہو تم؟ تمہارے لیے کوئی احتجاجاً چار لفظ نہیں بولتا وہ بھی نہیں بولتے جو سب کے آواز بننے کی دعویدار ہیں. کیا ہو تم؟ جو سب کیلئے آواز اٹھاتے اور سب کے حق کی بات کرتے ہو اور ہمیں بھی بولنا سکھایا، ہمیں لڑنا سکھایا ہر اس ظلم کے خلاف ہر اس ناانصافی کے خلاف، دیکھو اب تمہارے بعد ہم سب لڑ رہے ہیں، میں، امی، ماہ زیب تمہیں تلاشتے ہیں۔
یاد ہے تم اکثر مجھ سے کتابوں کے اور شخصیات کے بارے ذکر کیا کرتے تهے جب میں نے تمہیں کہا بهائی اس بڑے منہ والے اژدهے سے اپنے لوگوں کی زندگی کی جدوجہد کرنا ناممکن اور پر خطر ہے تم نے ہنس کر مجهے نپولین کا وہ قول بتایا تها کہ دنیا میں کچھ بهی نا ممکن نہیں، ناممکن ہی سہی پر تمہارے لیے ہر اٹهنے والی آواز اتنی مضبوط ہے کہ ناممکن ممکن سا لگنے لگا ہے۔
یاد ہے جو تیاریاں ہم تمہاری شادی کے لئے کررہے تهے وہ آخری مراحل میں ہے، سب مکمل ہوچکے ہیں تمہارے کپڑے، جوتوں تک ہم نے تیار کیا ہوا ہے، تیاریاں مکمل ہیں ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں سب تیاریوں کو کوئی تہس نہس نہ کردے کوئی آکر تمہارے شادی کے کپڑوں کو رات کے اندھیرے میں ہم سے تمہاری طرح چھین کر نہ لے جائے۔
بھائی اب تو آ جاؤ، اب تو سب کچھ تیار ہیں بس اب فقط تمہارا انتظار ہے تمہیں لوٹنا ہے مجھے پختہ یقین ہے تم جس طرح اچانک ہم سے دور چلے گئے نہ اتہ نہ پتہ، نہ کوئی پیغام نہ کوئی فون بالکل اسی طرح اچانک ایک دن آؤ گے، آؤ گے اندھیروں سے لڑنے، ظلم و جبر و ناانصافی سے لڑنے، انسانی وقار انسانی عظمت کیلئے لڑنے تم تو اندهیروں میں روشنی تلاش کرنے کے ماہر ہو تو کیا یہ تنگ اندهیرے کالی کوٹھڑیاں تمہیں روشنی تلاش کرنے سے روک سکتے ہیں کیا کچھ لوہے کی زنجیریں تمہیں اور تمہاری آواز کو روک سکتے ہیں، کیا وہ دیواریں اتنی مضبوط اور بلند ہیں کہ ان سے تمہاری آواز نہیں نکل سکتا، نہیں ایسا آج تک کچھ بنا ہے اور نہ ہی بنے گا کہ تم اور تمہارے آواز یا تم جیسوں کی آواز کو روک سکے، کل تمہارا جو ایک آواز تهی آج وہ دس ہیں اور تم ہی ان سب آوازوں کی وجہ ہو اور یہ آوازیں تمہیں دور زندانوں میں بھی آئیں گے اور انہی زندانوں سے تمہیں یہ آوازیں ایک دن چھین کر میرے سامنے لا کر رکھ دیں گے اور یہ یقین روز بروز مضبوط ہوتا جارہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔