بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین نے بلوچ خواتین کی اغواہ نما گرفتاریوں کے رد عمل میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ عورتوں کو اغوا کرکے ریاست قتل و غارت گری، ظلم و تشدد کی آخری حد تک پہنچ گئی ہے۔
چیئرمین نے مزید کہا کہ روز اول سے بلوچستان کے لوگوں کو کس طرح خاک و خون میں نہلایا جا رہا ہے اور ہنوز یہ ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ حق و باطل کی اس معرکہ آرائی میں جس حد تک دشمن چلا گیا ہے شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے کہا ہے کہ سامراج اور حاکموں نے ہمیشہ اسی کوشش میں رہے ہیں کہ وہ محکوم اقوام کی تہذیب، ثقافت، اقدار اور روایت کو مختلف حیلے اور بہانوں سے پاوں تلے روند کر انہیں مسخ کریں اور بلوچ عورتوں کا تسلسل کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کرنا انہی گھناؤنے پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
سہراب بلوچ کا کہنا ہے کہ آج بھی ریاست مختلف حربوں کے ذریعے بلوچ عورتوں کو استعمال کر رہی ہے۔ عورتوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس طرح کی سرگرمیاں اس کی آزادی کی ضامن نہیں ہیں بلکہ انہیں غلامی کی بدترین شکل میں جکڑا جارہا ہے جو انہیں اپنے آپ سے اپنے قوم سے بیگانہ کر دے گی۔ اب بلوچ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ محکومی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکے اس خونی کھیل کا خاتمہ اور حق و باطل میں تمیز کرکے ایک زندہ اور خودمختار قوم کیلئے اس جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔