خواتین کی اغواء و گمشدگیوں کو روکنے کے لیے جامع حکمت عملی بنانا ہوگا – ڈاکٹر اللہ نظر

610

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آواران واقعہ میں خواتین کو دہشت گرد قرار دینے اور ان سے اسلحہ برآمدگی کے پاکستانی فوج کے موقف پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح پاکستان اپنی جنگی جرائم کو نہیں چھپا سکتی۔ ان نہتے خواتین کو کئی چشم دید گواہوں کے سامنے پاکستانی فوج نے گھسیٹ کر حراست میں لے کر آواران کے مرکزی کیمپ منتقل کیا۔ کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھ کر انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر عوامی دباؤ کے پیش نظر ایک بند کمرے میں چند ہتھیار خواتین کے سامنے رکھ کر تصاویر لے کر انہیں میڈیا کی زینت بنایا گیا۔

ڈاکٹراللہ نذر بلوچ نے کہا ایسے واقعات نئی نہیں ہیں۔ ہماری بچے،بچیاں اور عورتیں کہیں بھی محفوظ نہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ جہد آزادی میں مصروف جماعتوں کو بھی اپنی پالیسیوں میں ترمیم کرکے عورتوں کے اغواء،گرفتاری اور گمشدگیوں کو روکنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی طے کرنا ہوگا۔اب وقت آچکا ہے کہ ہم دشمن کی دْکتی رگ پر ہاتھ رکھیں۔ بیس سالہ تجربے نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے جنگی قوانین اور بلوچ اقدار پر یک طرفہ عمل درآمد کو پاکستانی فوج ہماری کمزوری سمجھ کر اب ہماری عزتوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے سینکڑوں بلوچ خواتین پاکستانی فوج نے اغوا کرکے عقوبت خانوں میں بند کر رکھی ہے۔البتہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ خود میری اہلیہ اور شہید استاد اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے مقامی مخبروں کی مدد سے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ شہید غوث بخش کا پورا خاندان آج بھی مشکے میں فوجی حراست میں اذیتیں سہہ رہا ہے، جو ایک سال سے زائد عرصے سے لاپتہ ہیں۔ میر لیاقت ساجدی کی اہلیہ کو گزشتہ سال اغوا کرکے کچھ دن خفیہ زندانوں میں رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ بی بی نازل بلوچ کو پہلے بھی انہی فورسز نے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ تربت میں ہماری بچیوں کو کئی دنوں تک محاصرے میں رکھا گیا۔ کراچی میں بی بی فرح کو عمارت کی تیسری منزل سے نیچے گرا کر شدید زخمی کیا۔ مشکے تنک میں میر ساہو کے گھر پر بمباری کرکے خواتین اور بچوں کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بمباری سے خواتین کو شہید کیا گیا۔ بسیمہ میں گھر پر حملہ کرکے بی بی حلیمہ کو شہید کیا گیا۔ غرض ان واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس دفعہ پاکستانی فوج نے اپنی نئی ڈرامہ کے تحت انہیں منظر عام پر لایا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے ان لوگوں کی پہچان ہوجاتی ہے جو بلوچ کا نام لیکر نام و شہرت کماتے ہیں مگر ایسی گھڑی میں خاموش رہ کر اجتماعی تذلیل پر گویا اپنی رضامندی کا تاثر دے رہے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ بلوچ قوم جس کسی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے تو اسے گرا کر ڈھیر کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتی۔

انہوں نے کہا کہ میرا آزادی کے تحریک میں شامل بلوچ قوم کی تمام قوتوں اور ستونوں سے اپیل ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر بلوچ خواتین کی عزت کو تار تار کرنے کی پالیسیوں پر پاکستان کے خلاف سخت رد عمل دکھائیں۔