بلوچستان کے ضلع خضدار اور پنجگور سے تین افراد کو پاکستانی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق خضدار کے علاقے توتک سے 17 سالہ خیر اللہ ولد عبدالصمد لانگو کو ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
خیال رہے توتک کے علاقے مژی سے فروری 2014 کو ایک اجتماعی قبر سے 169 لاشیں ملی تھی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مذکورہ افراد کو ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے قتل کرنے کے بعد اجتماعی قبر میں دفنا دیا تھا۔
گذشتہ سال بی بی سی اُردو پر شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق خضدار کے ایک سماجی رہنما اور وکیل نے اپنی زندگی کو ممکنہ طور پر لاحق خطرات کی وجہ سے شناخت خفیہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ بی بی سی کو بتایا کہ فروری 2014 میں تُوتک سے اجتماعی قبریں ملنے کے واقعے کے فورا بعد کوئٹہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکانزئی کے ماتحت بننے والی ٹرائیبونل میں اجتماعی قبروں سے شفیق مینگل کی وابستگی کی تصدیق 20 سے زائد عینی شاہدین نے کی تھی۔
قبل ازیں توتک سے فوجی آپریشن میں حراست بعد لاپتہ ہونے والے ایک ہی خاندان کے 13 افراد کی گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہوگئے ہیں۔
لاپتہ قلندرانی خاندان کے خالصہ بلوچ نے رواں سال ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے اداروں کے نام ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ خضدار کے علاقے توتک میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز نے ہمارے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لینے کے بعد ہمارے خاندان کے سارے مرد حضرات کو گرفتار کرلیا، گرفتاری کے بعد خواتین اور بچوں کو نکال کر ہمارے گھر کو پاکستانی فورسز نے جلا دیا ۔
خالصہ بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار افراد میں سے چند ایک کو کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا جبکہ ہمارے خاندان کے 13 افراد تاحال لاپتہ ہیں، ان لاپتہ افراد میں میرے بوڑھے دادا محمد رحیم خان قلندرانی جس کی عمر 80 سال ہے، بھی شامل ہیں جبکہ دیگر لاپتہ افراد میں میری چچا ڈاکٹر محمد طاہر، ماما فدا احمد، ندیم، نثار، آفتاب اور خالہ کے تین بیٹے عتیق، وسیم اور خلیل شامل ہیں۔
خیال رہے کہ تُوتک میں اجتماعی قبریں ملنے پر اس وقت کے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک بلوچ نے بھی مختلف اخباروں کو دیے گئے بیانات میں شفیق مینگل سے منسلک مسلح تنظیم دفاعِ بلوچستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تھاـ
دریں اثنا ضلع پنجگور سے فورسز نے دو افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
علاقائی ذرائع کے مطابق فورسز نے رسول بخش ولد نزیر اور شبیر ولد نور بخش کو زنڈیں داز کے علاقے سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
خیال رہے مذکورہ افراد کے آج سی پیک روٹ پر واقع فرنٹیئر کور کے چیک پوسٹ پر حملے کے بعد فورسز نے دوران سرچ آپریشن حراست میں لیا جبکہ حملے کی ذمہ داری بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان بیبگر بلوچ نے قبول کی ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج جاری ہے، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کی جانب سے دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن پر احتجاجی مظاہرے کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔