جنگی حکمتِ عملی | قسط 17 – سادہ مادیت اور قدیم جدلیات

296

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 17 | نواں باب – سادہ مادیت اور قدیم جدلیات

کبھی کبھی دنیا میں رونما ہونے والے کئی واقعات کا قبل از وقت اندازہ لگانا کسی قدر مشکل ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان کے زمان و مکان تاریخی پس منظر اور ترقی کے نتائج میں فرق ہوتا ہے لیکن اکثر تاریخی ترقی کے اصول کے مطابق ہونے والے قواعد سے اضافی سچ کے صحیح ہونے کا پتہ چل جاتا ہے۔ فلسفہ کے نقطہ نظر سے اس معروف دنیا سے متعلق انسان کے عملی علم کو مادیت کہا جاتا ہے۔ سن زو نے جنگ کے فن پر لکھی گئی قدیم دور کی کتابوں کا جائزہ لے کرآج سے دوہزار برس قبل ”جنگی فن“ نامی کتاب لکھ کر مختلف سماجی مظاہر کے اجزاء کو ملاکر ایک جگہ مجتمع کرنے کا کام کیا ہے۔

سن زونے اس کتاب کے ذریعے جنگ کے عام قوانین یا بحث مباحثوں یا ان جامع عناصر کو دنیا سے متعارف کروایا ہے جن کا تعلق فتح سے ہے‘ اس کے ساتھ اس کتاب میں سادہ مادیت اور قدیم قسم کی جدلیات کے نظریے کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہار اور خزاں کے زمانے میں چین عہد غلامی سے نکلنے اور جاگیرداری سماج میں پیر رکھنے کے عبوری دور سے گزر رہا تھا۔ پانچ سوسالہ اس دور کی طرف سے پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کے باعث ان میں کئی نظریے ختم ہوگئے لیکن ان میں سے کئی روز بہ روز بڑھتے رہے۔ سن زو کا نظریہ بھی آگے بڑھتا اور ترقی کرتا رہا اور آج تک پھلتا پھولتا اور ارتقاء پزیر ہوتا رہا ہے اور عملی طورپر آج بھی اپنی غالب حیثیت کا مالک ہے۔

سن زو کے جنگی فن میں سادہ مادیت اور قدیم جدلیات کا نظریہ واضح ہے جو اس کے مختلف بیانات میں واضح نظر آتا ہے‘ ان میں سے درج ذیل مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

اس کا بیان ہے کہ ”ایک سچا حکمران اور دانشمند جنرل ہی دشمن پر حملے آور ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ وہ عام آدمی سے زیادہ اس لئے کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ قبل از وقت اندازہ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں‘ درست پیشگوئی کرنے کا علم نہ انہیں جن بھوت اور دیوتا بتاتے ہیں اور نہ ہی ماضی کے ورقوں سے انہیں ایسی کوئی معلومات ملی ہے اور نہ ہی ایسے اندازے کسی قسم کے نتائج سے اخذ کئے جاسکتے ہیں بلکہ ایسی درست پیشگوئیاں فقط وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اپنے دشمن کی جنگی نقل و حرکت کو صحیح علم ہوتا ہے۔“

سن زو کا کسی جن‘ بھوت‘ الہام اور دیوتا پر یقین نہیں تھا اور نہ ہی علم نجوم پر اس کا عقیدہ تھا ہمیں اپنی قومی ثقافت پر فخر ہے کہ اس کا آج سے دوہزار برس قبل بھی کسی دیوتا یا خدا پر یقین نہیں تھا۔

دہریت اور خدا
دنیا میں دو نظریات کا تصادم رہا ہے جن میں سے ایک دہریت اور دوسرا خدا کے وجود کا نظریہ ہے۔ فوجی معاملات میں ایسی باتیں نہایت واضح نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں چین میں جنگ کرنے سے قبل خال نکال کر جنگ کے نتائج سے متعلق پیش گوئی کی جاتی تھی۔

قدیم دور میں مذہب پر یقین نہ رکھنے والے اور مذہب پسند وہمی قسم کے فوجی جرنیلوں کے مابین مباحث ہوتے تھے کہ ”جیازی کے روز“ جنگ کیلئے پیش قدمی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ دہریت پسند جنرل مذہبی قسم کے فوجی جرنیلوں کو جواب میں مویی کی جنگ (1098 قبل از مسیح) کی مثال دیتے تھے جس کی ابتداء چاؤ وونے جیازی کے روز کی تھی اور اس جنگ میں چاؤ وو کو فتح جب کہ ینگ چاؤ حکمران کو شکست نصیب ہوئی تھی۔ دیکھا جائے تو سن زو ایسے فال توہمات اور وسوسوں کا قائل نہ تھا لیکن اس زمانے میں وہم کے مارے ہوئے ایسے جرنیل بھی ہوتے تھے جو جنگ سے قبل اچھے برے نتائج معلوم کرنے کیلئے فال نکال کر پیشگوئی کرتے تھے۔ ایسی باتیں نہ صرف چین میں رائج تھیں بلکہ مغرب میں بھی اس کا رواج تھا۔ حضرت عیسیٰ کے جنم سے نصف صدی قبل روم کا حکمران جولیس سیزر تھا جو ایک بار جرمنی پر حملہ آور ہوا تھا‘ ایک جنگ میں اس کے ساتھ جرمنی کے لشکر کا نصف حصہ لڑرہا تھا اور روم والوں کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اگر جرمنی کی سیاہ فوج روم کے لشکر سے لڑتی تو اسے ضرور شکست دیتی۔ جرمنی کے ایک جنگی قیدی کا کہنا ہے کہ جرمنی کی فوج کا ایک بڑا حصہ اس لئے نہیں لڑا تھا کہ ان کا یہ ایمان تھا کہ نیا چاند دیکھنے کے بعد ہی روم پر حملہ کرنا چاہئے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو جرمنی کو ضرور شکست ہوگی۔

سن زو کے بیانات سے معلوم ہوگا کہ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس لئے اس کا یہ نقطہ نظر قابل تحسین تھا اس کا اصول تھا کہ ’دشمن کی معلومات ایسے لوگوں سے لینی چاہئے جو اس کے نقل و حرکت سے صحیح طور پر واقف ہوں‘ اس بات سے پتہ چلے گا کہ فقط جاسوس استعمال کرنے پر دارومدار نہیں کرنا چاہئے، اُس کا اِس بات پر بھی زور تھا کہ فتح کیلئے سیاست‘ سفارت اور بہتر اقتصادی حالات بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا دہریت پسند نظریہ اس اظہار خیال سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ’حکمران کو چاہئے کہ اپنی رعایا میں بھائی چارے کا جذبہ پیدا کریں، مقدس مقامات پر جاکر صحیح طرح سے پیشنگوئیاں کی جائیں، دشمن کی جنگی حکمت عملیوں اور طے کردہ اتحاد کو تباہ و برباد کردینا چاہئے اور ایک ہزار سونے کے سکے ہاتھ میں ہوں تو ایک لاکھ فوج بھرتی کی جائے۔‘

قدیم جدلیات سے متعلق سن زو کا نظریہ
سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ میں اس کے کئی ایسے بیانات دیکھنے میں آئیں گے جن سے قدیم جدلیات کا نظریہ نظر آئے گا‘ اگر ہم اس کے اظہار خیال پر غور کریں گے تو ہمیں مخالفین کے اتحاد سے وابستہ کئی اصطلاحات سننے میں آئیں گی جیسے کہ خاص و عام‘ دھوکہ اور حقیقت‘ ٹیڑھا اور سیدھا‘ طاقتور و کمزور‘ سازگار و ناساز گار‘ دشمن و دوست‘ کم و زیادہ‘ تازہ و باسی‘ شکم سیر و بھوکا‘ امن و انتشار‘ گھمسان و خاموشی‘ پیش قدمی و پسپائی‘ دور و نزدیک‘ نفع و نقصان‘ بہادر و بزدل وغیرہ۔

دھوکہ  اور حقیقت کو سمجھاتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ کبھی دھوکہ حقیقت اور حقیقت دھوکہ ہوجاتی ہے۔ کتاب کے باب ”دشمنی کے جنگی نقشے اور مقامی جغرافیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فوجی ڈھانچے کی ترتیب“ میں وہ لکھتا ہے جنگ میں خاص و عام قسم کی فوج ہوتی ہے لیکن ان دونوں قسم کے فوجی یونٹوں کو ملاکر نہیں رکھا جاسکتا‘ وہ مزید کہتا ہے کہ ”جب آپ کو یہ یقین ہوجائے کہ آپ کی فوج دشمن کے حملے کا وار سہہ پائے گی اور آپ کو کسی طور شکست نہ ہوگی تو اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آپ خاص و عام قسم کے فوجی یونٹوں کو صحیح طریقے سے بروئے کار لائے ہیں کیونکہ ان دونوں قسموں کے فوجی یونٹوں کو جنگی حالات کے مطابق بار بار بنایا جاتا ہے اس کا اندرونی عمل باہمی طورپر جڑا ہوا اور حلقہ در حلقہ وسیع ہوتا ہے‘ ان دونوں قسموں کے فوجی یونٹوں کے کام کا تعین کمانڈر کرتا ہے کہ ایک کا کام کب ختم ہوتا ہے اور دوسرے کا کام کب شروع ہونا چاہئے۔“

سن زو نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کمانڈر کیلئے اندازہ قائم کرتے وقت ساز گار و ناساز گار باتوں کو دھیان میں رکھنا نہایت ضروری ہے‘ اس کتاب کے باب ”نو مختلف باتوں“ میں اس نے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ جنگی منصوبہ تشکیل دیتے وقت دانشمند کمانڈر کو سازگار و نا سازگار باتوں پر ضرور سوچنا چاہئے وہ ساز گار ناسازگار باتوں پر سوچ بچار سے اپنے بنائے ہوئے جنگی منصوبے کو ممکن بناسکتا ہے‘ ممکن ہے کہ وہ نا ساز گار باتوں پر سوچ بچار کرکے درپیش مشکلات کو دور کرنے کیلئے کوشش کرے۔

اس نے ”فوجی نقل و حرکت، جنگی ترتیب و چال“ کے باب میں اشارہ دیا ہے کہ ”تجربہ کار کمانڈر اس وقت اپنے دشمن کو نہیں چھیڑتا جب اس کے حوصلے بلند ہوتے ہیں‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمن پر اس وقت حملہ کرے جب وہ سست بنا بیٹھا ہو اور اس کے فوجی سپاہی وطن واپسی کے انتظار میں بیٹھے ہوں‘ اس بات کا تعلق اخلاقی ضابطے سے ہے‘ اگر آپ صحیح طرح سے منظم ہیں تو پھر دشمن پر حملے کیلئے اس وقت تک رکنا چاہئے جب تک اس کی فوج میں بدنظمی پیدا نہیں ہوتی۔ جب دشمن کی فوج میں شور کشیدگی اور گھمسان ہو تو آپ کو سکون و اطمینان ہونا چاہئے۔ یہ بھی اخلاقی ضابطے کا اصول ہے آپ اپنا فوجی کیمپ جنگی میدان کے ساتھ قائم کریں آپ کا دشمن دور سے آئے گا جسے آرام کی ضرورت ہوگی۔ آپ کی تازہ دم فوج کو تھکے ہائے دشمن کا انتظار کرنا چاہئے۔ دشمن اس وقت سفر کی وجہ سے بہت بھوکا بھی ہوتا ہے‘ یہ بات فوج کی جسمانی تندرستی سے تعلق رکھتی ہے اگر دشمن پورے منظم طریقے سے پیش قدمی کررہا ہو یا اس کی نقل و حرکت میں طاقتور فوجی تربیت اور صف بندی موجود ہے تو اس پر حملہ نہیں کرنا چاہئے‘ یہ تبدیل شدہ حالات پر ضابطہ رکھنے کا اصول ہے۔

سن زو کے مندرج بالا اصولوں سے ہمیں یہ حقیقت نظر آئے گی کہ اس کے سامنے جدلیاتی نظریات تھے جن کے ساتھ مخالف اتحاد کا عالمگیر قانون موجود ہے۔

اگر سن زو کے اصولوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی سوچ و فکر منظم و بامقصد نظر آئے گی۔ اگر اس کے فطرت اور دنیا سے متعلق نقطہ نظر پر غور کریں تو اس کی منطقی سوچ میں بے پناہ قوت نظر آئے گی اس لئے اس میں شان و شوکت اور مرتبہ بھی موجود ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔