جنگی حکمتِ عملی | دسواں باب – جنگ کے عالمگیر قوانین (آخری حصہ)

264

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
جنگی حکمتِ عملی اور اُس کا تحقیقی جائزہ

مصنف: سَن زُو
ترجمہ: عابد میر | نظرِثانی: ننگر چنا

قسط 21  دسواں باب – جنگ کے عالمگیر قوانین – (آخری حصہ)

اگر آپ سن زو کے اصول کے مطابق لچکدار انداز میں پیش قدمی کریں گے تو یقیناً جنگ کے میدان میں غالب حیثیت کے حامل ہوجائیں گے‘ اس کا کہنا ہے کہ ”میں کہتا ہوں کہ فتح آپ کی ہوسکتی ہے‘ بھلے دشمن تعداد کے لحاط سے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی میں اسے خود سے لڑنے سے روک پاؤں گا۔“

فوج میں لچک کے عنصر کی موجودگی اس اصول سے تعلق رکھتی ہے کہ جنگ کی بنیاد دھوکہ ہے۔ سن زو کی کتاب ”جنگی فن“ کے باب ”اندازہ لگانا“ میں لکھا ہے کہ ”تمام جنگوں کا دار و مدار دھوکے پر ہے۔“ اُس کے مطابق ”اگر آپ حملہ کرنے کے قابل ہیں تو دشمن کو دھوکہ دیں کہ آپ سست اور کمزور ہیں‘ اگر پیش قدمی کے دوران آپ پھر تیلے اور چست ہیں تو آپ دشمن کو دکھائیں کہ آپ سست اور کاہل ہیں‘ جب دشمن کے قریب پہنچیں تو یوں محسوس کروائیں کہ دشمن آپ کو بہت دور سمجھے اور جب آپ دور ہوں تو دشمن کو دھوکہ دیں تاکہ وہ سمجھے کہ آپ اس کے پاس پہنچ گئے ہیں۔“

یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی لچک برجستگی‘ پھرتی‘ چستی یا سستی‘ دوری یا قربت‘ دوسری باتوں سے وابستہ ہے۔ مثال کے طورپر یہ اصول کہ آپ بہت زیادہ دور ہیں اور دشمن کو یہ سمجھانے کے لئے دھوکہ دے رہے ہیں کہ آپ اس کے نزدیک پہنچ چکے ہیں‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایسی جنگی چال چل رہے ہیں کہ دشمن آپ کو اپنے قریب سمجھ بیٹھے اور بھونچکارہ جائے لیکن حقیقت میں آپ اس سے میلوں دور ہوں۔

ذیل میں ایسی دو مثالیں دی جارہی ہیں جن میں سے ایک کا تعلق قدیم دور کے جنرل اور دوسروی کا موجودہ دور کے جنرل سے ہے۔ ان دونوں نے مندرجہ بالا اصول پر عمل کرکے فتوحات حاصل کیں۔

ہن“کا ”چو“پر حملہ:
205ق۔م میں ”ہن“ ملک کے بادشاہ ہیں ژین نے ”چو“ ملک کے حکمران وے وئنگ باؤ پر حملہ کرنا چاہا جو پہلے ندی کے دوسری طرف تھا‘ اس کی خواہش تھی کہ ”وی“ پر پشت کی جانب سے ”اینئے“ پر حملہ کرے (اب انیئے کا علاقہ شئنگر کے صوبہ میں واقع ہے‘ اس وقت وہ انتہائی دور ژیا ئینگ کے علاقے میں تھا‘ یہ جگہ اب ہئنچن کے علاقے میں شئن ژے صوبے میں موجود ہے) اس نے دھوکہ کرکے یہ احساس دلایا کہ وہ پہلے ندی کی قریب کے مقام لینمنگ کے پاس سے گزر رہا ہے اس لئے فوجی سامان بھی اس مقام کے پاس جمع کیا گیا تھا‘ وئنگ باؤ اس دھوکے کو سچ سمجھ کر مرکزی فوج کو لے کر لینمنگ کے قریب مورچہ بند ہوکر بیٹھ گیا تھا اور انئیے کو بناء کسی دفاع کے چھوڑ آیا تھا‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہن ژین کے لشکر نے ژیائنگ کے پاس پہلے ندی کو پار کیا ور اس کی مزاحمت کیلئے کوئی موجود نہ تھا۔
”چو“اور ”ہن“ممالک کے مابین یہ ایک بڑی جنگی مہم تھی۔

نار منڈی پر حملہ:
دوسری عالمی جنگ یورپ میں زمینی حملوں کے دوران امریکہ کے جنرل آئزن پاور نے فیصلہ کیا تھا کہ اتحادی افواج فرانس کے شمال مغرب میں نارمنڈی کے پاس پہنچنی چاہئیں لیکن اس نے دھوکہ کرکے یہ اشارہ دیا کہ یہ فوج کا لائس کی اراضی کے پاس جمع ہونی ہے‘ اس لئے اس علاقے میں ایک فوجی ہیڈکوراٹر قائم کیا گیا اور اتحادی فریق کی بحری ہوائی اور بری فوج اس علاقے میں پہنچنا شروع ہوگئی‘ یہ جنگی سرگرمیاں دشمن اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا‘ آئزن ہاور نے ہٹلر کو الجھانے کیلئے کئی افواہیں پھیلائیں اور کئی جھوٹے ٹیلی فون کئے‘ نازی جرمنی نے دھوکہ میں آکر اپنی فوج کا مرکزی حصہ کا لائس کے علاقے میں لاکر جمع کیا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج بغیر کسی مزاحمت کے انتہائی آسانی کے ساتھ نارمنڈی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔

ماؤزئے تنگ کے ہاں پہل کاری اور لچک کی اہمیت:
ماؤزے تنگ نے اپنی فوجی تصانیف میں پہل کاری اور لچک کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ دونوں باتیں جنگ میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس نے پہل کاری کو فوج کی آزادانہ کارکردگی سے تشبیہ دی ہے‘ آزادانہ کار کارکردگی فوج کی زندگی جتنی اہمیت رکھتی ہے اگر یہ ختم ہوگئی تو سمجھ لینا چاہئے کہ فوج شکست اور تباہی کے قریب جاپہنچی ہے۔ لچک سے متعلق بھی اس کا نقطہ نظر انتہائی واضح ہے اس کا کہنا ہے کہ ”لچک دانشمند کمانڈر کی اہمیت سے وابستہ ہے کہ وہ معروضی حالات کے تحت صورتحال کو جانچے، پر کھے، بروقت اور موثر اقدامات اٹھائے (اس ضمن میں اپنے جنگی حالات‘ دشمن کی جنگی صورتحال اور جغرافیائی صورتحال پر سوچ و بچار کرنا ہوگا) یوں لچک متبدل جنگی چال میں تدبر کی حیثیت رکھتی ہے۔“

یہ ایک عملی نوعیت کی بات ہے کہ سن زو کے خیالی اصولوں کو اس قسم کے پیمانے پر پرکھ کر دیکھا جائے‘ اس کے علاوہ عملی نوعیت کے خیالی اصولوں پر بھی انتہائی زیادہ بحث کی گئی ہے جس کا تعلق سن زو کی کتاب جنگی فن میں بیان کردہ جنگ کے احکامات وہدایات سے ہے۔ مذکورہ کتاب میں فقط چند اعلیٰ قسم کے خیالات پر بحث ومباحثہ کیا گیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔