تحاریک میں خواتین کا کردار
تحریر۔ سمعیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہر دور میں محکوم سماج کو مختلف طبقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ہمیشہ سے رہی ہے، خاص طور پرعورت کو سماج کا سب سے نازک طبقہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عورتوں کو جدوجہد سے دور کرنے یا ان کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کیلئے عورتوں کو چار دیواری کی عزت کہہ کر ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رٹی رٹائی جملے ہر سماج میں دہرائی جاتی ہے کیونکہ بالادست قوتوں کو خواتین کی طاقت کا اچھا خاصہ تجربہ ہوتا ہے۔
لیکن اس حقیقت کو بهی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کسی بھی سماج میں خواتین کی جدوجہد میں شامل ہونے کے بغیر بدلاو ممکن نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کیلئے لازم ہے کہ جدوجہد میں صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہیئے اور مرد و خواتین کی یکساں جدوجہد کرنے سے تبدیلی ممکن ہے۔
انقلابات کا مطالعہ و موازنہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کی جدوجہد سماج میں روح کی اہمیت رکھتی ہے۔ روح کے بغیر جسم مردہ حالت میں ہوتی ہے، اسی طرح اگر مرد جدوجہد کرتے ہیں، اس جدوجہد سے تبدیلی بھی آجائے لیکن اس تبدیلی کی رنگ مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس جدوجہد میں معاشرے کی اکثریت کی رائے نہیں ہوتی۔
16ویں صدی سے لے کر موجودہ صدی تک آئیں تو ہمیں جتنے بھی انقلابات ملیں گی، وہاں معاشرے کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں عورت صف اوّل میں رہی ہے، پہلی تبدیلی زراعت کی ابتداء سے شروع ہوئی۔ زراعت کے ابتداء کے بعد سب سے بڑی تبدیلی صنعتی انقلاب سے لے کر مختلف ادوار میں جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں، ان تمام تبدیلیوں میں عورتوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اسکے ساته ساته انقلابی تحریکوں میں بهی عورت نے وہ کردار ادا کیا کہ اج بهی تاریخ جب لکهی جاتی ہے تو لیلا خالد، جون آف آرک، ایماگولڈمان، گولڈامیئر، کلارازیٹکن، اندرا گاندھی، شیخ حسینہ واجد ،سکینہ کینسز کرد اور ایسے بہت سے کرداروں کو سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے.
اسی طرح اس ضرورت کو بهانپ کر بلوچ سماج میں بهی ایک تبدیلی نمودار ہوئی، جہاں خواتین کیلئے بہت ہی کم تعداد میں سیاست اور تعلیم کے دروازے کھول دیئے گئے، جس میں بلوچ خواتین بھر پور اور بڑی لگن اور محنت کے ساتھ کردار ادا کرتے رہیں اور فرسودہ قبائلی نظام سمیت ایکسٹریمسٹ نوابادکار کو یہ گراں گذرا، عورت کے خلاف سازش تو ہر دور میں ہوتی رہی ہیں پر بلوچ خواتین، طلباء سیاسی ایکٹویسٹ اس بار اس چالاکی کا نشانہ بننے کے بجائے اسکے خلاف بغاوت پر اتر آئے اور دنیا کے سامنے اعلان کردیا کہ بلوچ معاشرے میں لیلہ خالدوں کی کمی نہیں اور اپنے حق پر سچائی کے ساتھ ڈٹے رہنے کا ہنر و رواج زندہ رکهینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔