بلوچ قوم کی لسانی و مذہبی بنیاد پر تقسیم
تحریر : نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب سے اس ناپاک ریاست نے بلوچستان پر قبضہ کیا تب سے اس نے بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کے لیے اور بلوچ قوم کی اتحاد کو ٹھونس پہنچانے کے لیے نو آبادکار ریاست نے مختلف حربے استعمال کیے ہیں. کہیں اس نے لسانیت کو بڑھائی دی تو کہیں اس نے بلوچ قوم میں مذہبی انتشار کو فروغ دے کر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔
بلوچ قوم جو کہ اس وقت ایک غلام قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی جی رہا ہے. کسی نے اس غلامی کو بطورِ آزادی قبول کیا اور ناپاک ریاست کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کی استحصال میں برابر کے شریک ہو گئے. تو کسی نے اس غلامی کو بطورِ غلام قبول کیا اور اپنی ایک آزاد ریاست کی جدوجہد کو اپنے زندگی کا فریضہ سمجھ کر اس عظیم جدوجہد کو مزید تقویت بخشی۔
کوئی بھی قوم مذہب و لسانیت کی بنیاد پر نہیں بنتی بلکہ کسی بھی قوم کی رسم و رواج، اس کی ثقافت اور تاریخ اس کی شناخت ہے. اور کسی بھی قوم میں بہت سے مذہب اور بہت سی زبانیں ہوسکتی ہیں لازمی نہیں ہے کہ ہر قوم کا ایک ہی مذہب اور ایک ہی زبان ہو. اسی طرح بلوچ قوم میں بھی بہت سے مذہب ہیں اور بلوچ قوم کی بہت سی زبانیں ہیں۔
قابض ریاست اس وقت جو دیکھنے کو مل رہا ہے وہ لسانیت کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے. اس کام میں صرف ریاست شامل نہیں بلکہ وہ بلوچ بھی شامل ہیں جو اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اور ریاست کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں. کچھ لسانیت پرست اس چیز کو ہوا دے کر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہیں. ریاست بلوچ و بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں ہے، جس سے ریاست کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ بلوچ قوم کو اس کی تاریخ سے دور رکھ کر بلوچ قوم کو غلام بنانا اور بلوچستان پر اپنا قبضہ قائم کرنا چاہتا ہے۔
قابض ریاست نے بلوچستان میں براہوی بولنے والے بلوچوں کو ایک علیحدہ قوم ظاہر کرنے کے لیے وہاں پہ لسانیت کی بنیاد پر کچھ براہوئی بولنے والے بلوچوں کو ہوا دی کہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں حالانکہ براہوئی بلوچوں کا ایک زبان ہے اور ریاست کی یہ ناکام کوشش کسی بھی بلوچ فرزند کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے. جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ ایک قوم کی بہت سی زبانیں ہوتی ہیں اور کوئی بھی قوم لسانیت کی بنیاد پر نہیں ہے۔
اگر ہم مشرقی بلوچستان میں دیکھیں تو وہاں پہ قابض ریاست بلوچوں کو تقسیم کرنے کے لیے، سرائیکی بولنے والے کچھ بلوچوں کو ہوا دے رہا ہے حالانکہ سرائیکی مشرقی بلوچستان میں بلوچوں کا ایک زبان ہے. اپنے تاریخ و تحریک سے نا واقف یہ لوگ ریاست کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں. اور بلوچ قوم کا حقیقی فرزند تاریخ کی اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان بلوچستان کے علاقے تھے اور ہیں. اور وہاں پہ رہنے والے باسی بلوچ ہیں. ریاست سرائیکی بولنے والوں کو سرائیکستان کا نعرہ لگوا کر ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو سرائیکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ بلوچ قوم کو مزید لسانی و علاقائی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتا ہے. بلوچ قوم کے پاس ریاست کی ہر حربے کو سمجھنے کی سکت ہونی چاہیے تا کہ مزید ہم ریاست کے ہاتھوں استعمال نہ ہو سکیں.
دوسری طرف ریاست نے بلوچ قوم کے اندر انتشار پھیلانے کے لیے مذہب کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بلوچ قوم کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی. اس نے کبھی بلوچوں کے اندر مذہبی جذبات کو اجاگر کر کے اپنے لیے لشکر جھنگوی جیسے مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور اپنے لیے استعمال کرتے رہے تو کبھی اس نے ذگری اور مسلمان کی تفریق کو فروغ دے کر بلوچوں کو آپس میں لڑایا. لیکن بلوچ قوم کے حقیقی فرزند نے ان چیزوں کو ایک طرف رکھ اپنے وطن کی آزادی کی عظیم جدوجہد کو فروغ دیا. اور اس عظیم فلسفے کو آگے بڑھایا کہ بلوچ قوم کا مذہب بلوچیت ہے۔
بلوچ قوم کو قابض کے ان حربوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے. ہم اپنے قوم کو مزید لسانی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے نہیں دیں اور ایک ہوں، ہم اپنی وطن کا دفاع کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔