بلوچ طلبہ تنظیموں کے آئین میں صنفی لسانی عدم توازن – عابدمیر

367

بلوچ طلبہ تنظیموں کے آئین میں صنفی لسانی عدم توازن

تحریر: عابدمیر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی نمائندہ طلبہ تنظیموں پہ مختلف تناظر سے لکھنے کا تہیہ کیا تو بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے چاروں دھڑوں کا آئین پڑھنے کاارادہ کیا تاکہ اندازہ ہو کہ ان تنظیموں کے اغراض و مقاصد میں بنیادی اختلاف کیا ہے۔ ان تنظیموں کے آئین و منشور کے مطالعے سے جو پہلی حیران کن بات سامنے آئی وہ ان کا صنفی عدم توازن کا رویہ تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بی ایس او کے لگ بھگ سبھی دھڑوں، بشمول بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے آئین میں نہ صرف صنفی عدم توازن پایا جاتا ہے بلکہ لسانی سطح پر بھی انھوں نے صنفی تفریق کو ملحوظِ خاطرنہیں رکھا۔

آئین و منشور کسی بھی تنظیم اور ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تنظیم کی پوری عمارت اسے کاغذی معاہدے پر کھڑی ہوتی ہے۔ اسی سے تنظیم کے چہرے مہرے اور ان کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر اس بنیادمیں ہی کجی رہ جائے تو ایک عالیشان عمارت کا خواب ممکن ہی نہیں۔ ان تنظیموں، خصوصاً بی ایس او کے چاروں دھڑوں کے دیگر آئینی معاملات پر آگے تفصیلی بحث ہو گی، فی الحال اس اہم غلطی کی نشان دہی مقصود ہے۔ اس نشست میں صرف اسی تناظر میں بات ہو گئی۔ ذیل میں یہی نکتہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں بی ایس او کے چاروں دھڑے بی ایس او (آزاد)، بی ایس او (مینگل)، بی ایس او (پجار)، بی ایس او (ظریف)اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے آئین و منشور کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

صنفی عدم توازن اور لسانی صنفی تفریق کی سب سے اہم مثال ان تنظیموں کے مرکزی عہدے میں دیکھی جا سکتی ہے۔سوائے بی ایس او آزاد کے، ان تمام تنظیموں کا مرکزی عہدہ ’چیئرمین‘(Chairman) درج ہے۔ ایک واضح مردانہ برتری والا عہدہ ہے۔بعض صورتوں میں یہ عہدہ گو کہ دونوں جنسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس کا استعمال اب ترک ہو رہا ہے۔اور اس کی جگہ چیئرپرسن کی اصطلاح مستعمل ہے۔

مذکورہ تنظیمون کے آئین کی زبان یہ ثابت کرتی ہے کہ تنظیم میں مرکزی عہدہ کسی مرد کے پاس ہی رہے گا، کوئی فی میل طالبہ اس عہدے کی اہل نہیں۔ تنظیمیں اس کی تردید کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ اس پہ کوئی پابندی نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ پابندی نہیں، مگرآئین میں اس کی گنجائش کیوں کر نہیں رکھی گئی؟ مثلاً اگر کل ان تنظیموں کے مرکزی عہدے پر کوئی فی میل طالبہ کامیاب ہوتی ہے تو گویا تنظیم کو پورا آئین تبدیل کرنا پڑے گا؟۔ اس سے بھی پہلے کوئی طالبہ ’چیئرمین‘ کے عہدے پر الیکشن کیسے لڑ سکتی ہے؟۔ جب کہ یہ عہدہ مردانہ اجارہ داری کا عکاس ہے۔

صرف اس عہدے میں صنفی نابرابری نہیں، بلکہ لسانی صنفی عدم توازن کا اظہار وہاں بھی ہوتا ہے، جہاں اس عہدے سمیت مرکزی عہدے داروں کی ذمے داریاں لکھی گئی ہیں۔ آئیے ان تنظیموں کے آئین سے اس لسانی صنفی عدم توازن کی مثالیں دیکھتے ہیں۔

بی ایس او (مینگل)
چیئرمین: تنظیم کا نگرانِ اعلیٰ ”ہو گا“۔
سینئر وائس چیئرمین:چیئرمین کی غیرموجودگی میں اس کے اختیارات استعمال کر ”سکتا ہے“۔
جونیئر وائس چیئرمین: مختلف امور میں سینئروائس چیئرمین سے تعاون ”کرے گا“۔

بی ایس او (پجار)
چیئرمین: تنظیم کا نگرانِ اعلیٰ ”ہو گا“۔
سینئر وائس چیئرمین:مختلف امور میں چیئرمین کے ساتھ تعاون ”کرے گا“۔
جونیئر وائس چیئرمین:مختلف امور میں سینئر وائس چیئرمین سے تعاون”کرے گا“۔
سیکریٹری جنرل:مرکزی کونسل،مرکزی کمیٹی اور مرکزی کابینہ کے اجلاسوں کا اہتمام ”کرتا“ ہے۔
سینئر جوائنٹ سیکریٹری:لائبریری اور اسٹڈی سرکلز کا انچارج ”ہوگا“۔
جونیئر جوائنٹ سیکریٹری:سینئر جوائنٹ سیکریٹری کی غیرموجودگی میں اس کے اختیارات و فرائض انجام ”دے گا“۔
سیکریٹری اطلاعات:تمام مرکزی نشر و اشاعت کا ذمہ دار ”ہوگا“۔

بی ایس او (ظریف)
ان کے نہ صرف تنظیمی عہدوں میں وہی لسانی عدم توازن ہے بلکہ حیران کن طور پر زبان میں بھی سو فیصد یکسانیت پائی جاتی ہے۔ بی ایس او پجار اور ان کا لفظ بہ لفظ یکساں آئین ہے۔
(بی ایس او کے مختلف دھڑوں کے آئین کے اغراض و مقاصد اور لسانی یکسانیت پہ الگ سے بات ہو گی)۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی
ان کے مرکزی عہدے چیئرمین، وائس چیئرمین، سیکریٹری جنرل،ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور سیکریٹری اطلاعات کے نام سے ہیں اور ان تمام کے لیے استعمال کی گئی زبان میں وہی لسانی عدم توازن ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔
حالاں کہ اس وقت ان کی مرکزی ’وائس چیئرپرسن‘ ایک فی میل طالبہ ہیں، لیکن حیران کن طور پر آئین میں اس عہدے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔

اس معاملے میں صرف سرکاری طور پر کالعدم قرار دی گئی بی ایس او آزاد کو استثنیٰ حاصل ہے۔ اور یہ حسنِ اتفاق بھی ممکنہ طور پر دو جوہات سے ہوا ہے۔ ایک تو یہ کہ حالیہ تاریخ میں اس تنظیم نے پہلی بار مرکزی عہدے پر ایک خاتون کو منتخب کیا۔ یوں انھیں ’چیئرپرسن‘ کے لفظ کا اضافہ کرنا پڑا۔لیکن حیران کن طور پر اس کے باوجود انھوں نے ’چیئرمین‘ کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ اپنے آئین میں مرکزی عہدہ کے سامنے چیئرمین/چیئرپرسن لکھا ہے۔ حالاں کہ چیئرپرسن کی اصطلاح صنفی نابرابری سے پاک ہے اور یہ دونوں جنسوں کے لیے دنیا بھر میں مستعمل ہے۔ لیکن‘چیئرمین‘ کے نام کے ساتھ بی ایس او کے کارکنوں کا جو رومانس (اور مردانہ برتری) جڑے ہوئے ہیں، ان کے باعث اس اصطلاح کو مکمل ترک کرنا اب بھی گوارا نہیں کیا گیا۔ لسانی عدم توازن سے بچنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ آزاد کا آئین بلوچی، براہوی میں لکھا گیا ہے۔ ہماری زبانیں چوں کہ انگریزی کی طرح فطری طور پر متوازن ہیں، اس لیے انھیں چیئرمین ”ہو گا“ یا ”ہو گی“ کی کوفت نہیں اٹھانا پڑی۔

تصحیح کیسے ہو؟

نمبر1۔ مرکزی عہدہ چیئرمین کی بجائے چیئرپرسن ہوناچاہیے یا پریذیڈنٹ۔ اور اگر نام کے رومانس سے نکلنا ناممکن ہے تو کم از کم ’آزاد‘ جیسا شارٹ کٹ تو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اسے چیئرمین/چیئرپرسن لکھاجائے۔
نمبر2۔ اردو میں عموماً ایسی صورت حال میں بیک وقت دونوں صنفوں کے لیے زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے: چیئرپرسن تنظیم کا نگرانِ اعلیٰ ہو گا/ہوگی۔
نمبر3۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ذرا سی محنت کر کے تحریر میں لسانی صنفی توازن قائم کر دیا جائے۔ جیسے:
چیئرمین کی ذمہ داریاں درج ذیل ہو ں گی:
۔ تنظیم کے تمام امورکی نگرانی کرنا
۔ تنظیم کا مرکزی اجلاس طلب کرنا
۔ تنظیم کے مالیاتی امور کا خیال رکھنا…………وغیرہ۔

آخری بات
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ معاملہ محض زبان کی سطح کا نہیں ہے۔زبان کا استعمال بذاتِ خودنہ صرف ہمارے سماجی، ثقافتی پس منظر کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ ہمارے عمل پر اثرانداز بھی ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ بی ایس او کے چاروں دھڑوں بشمول ایکشن کمیٹی کی مرکزی کابینہ میں کوئی ایک بھی طالبہ موجود نہیں۔ حتیٰ کہ ان تنظیموں کی عمومی ممبرشپ میں بھی طالبات کی نمائندگی کی شرح مجموعی نمائندگی کا دس فی صد بھی نہیں۔ اس کی دیگر سماجی وجوہات اپنی جگہ، لیکن شعوری یا غیرشعوری طور پر لسانی صنفی عدم توازن بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔

تنظیموں کو اس بابت اپنے آئین اور رویوں پرنظرثانی کرنا ہو گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔