بلوچ تحریک قومی شناخت پر مبنی ہے – خلیل بلوچ

470

مذہب کسی جدید تحریک کی بنیاد نہیں بن سکتی، ہماری تحریک قومی شناخت پر مبنی ہے۔ خلیل بلوچ

چیئرمین خلیل بلوچ سے یہ انٹرویو نمرتا بجی آہوجہ نے ”دی ویک“ کیلئے کیا تھا جو دس دسمبر کو انگلش میں شائع ہوا ہے۔ یہ اس انٹرویو کا من و عن اردو ترجمہ ہے۔

بلوچوں کی جدوجہد آزادی اور پاکستان کی ہزاروں فوجی جوانوں کو علاقے میں تعینات کرنے سے بلوچستان کے اندر سے اس کے خلاف آواز اُٹھ رہا ہے، بلوچ اقوام متحدہ سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر انسانی حقوق کے معاملات اٹھا رہے ہیں۔

اخلاقی مدد کے لئے بلوچ ہندوستان کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سب سے ممتاز بلوچ نیشنل موومنٹ جو ایک مرکزی دھارے میں شامل بلوچ پارٹی ہے، کا خلیل بلوچ چیئرمین ہیں۔ خلیل بلوچ کہتے ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان کی جدوجہد کا موازنہ کرنے کی پاکستانی کوششیں غلط ہیں اور اسلام آباد کشمیر کے نام کو بلوچ عوام کے خلاف اپنے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”کشمیری گروہ مذہب کو اپنے مقصد کے لئے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مذہب کسی بھی جدید سیاسی تحریک کی اساس نہیں بن سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔”

سوال: بلوچوں کی جدوجہد کو بین الاقوامی توجہ کیوں نہیں مل رہی ہے؟

چیئرمین خلیل: پاکستان آزاد ریاست کے لئے بلوچ جدوجہد کو دبانے کے لئے فوجی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ جدوجہد 1948 سے بلوچستان کے پاکستان میں جبری انضمام سے موجود ہے۔ تاہم 2000 کے اوائل میں، اس جدوجہد کو ایک نئی قوت ملی اور پورے بلوچستان کے عوام اس میں شامل ہوئے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر پاکستان نے طاقت کے ذریعے جدوجہد کی اس نئی لہر کو طاقت سے روکنے کے لئے اپنے ہزاروں فوجی اہلکاروں کو علاقے میں تعینات کیا۔ بلوچستان کے اندر سے پاکستانی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کو انسانی حقوق کی پامالیوں سے پردہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے درجنوں کارکنوں کو فوج کے ذریعہ اغوا کرکے ہلاک کردیا ہے۔ اس وجہ سے ذرائع ابلاغ بلوچستان کے حالات سے غافل ہے۔

سوال: بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی موجودہ حالت کیا ہے؟

چیئرمین خلیل: بلوچستان میں فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی ہر طرح کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ لوگوں کا لاپتہ کرنا اور نام نہاد قتل اور لاشوں کو مسخ کرنے کی پالیسی (kill-and-dump) بیرونی دنیا میں سب سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ ان انتہائی بامعنی الفاظ سے ہمارا مراد یہ ہے کہ فوج بلوچ عوام کو اغوا کرتا ہے ، مہینوں اور سالوں تک خفیہ زندانوں میں رکھتا ہے، انہیں قتل کر کےان کی لاشوں کو بلوچستان کے بیابانوں میں پھینک دیتاہے ۔ اِن جبری گمشدگیوں اور قتل و غارت گری کے علاوہ پاکستانی فوج بلوچ دیہاتوں کو جلانے میں ملوث رہی ہے ، جس سے پوری آبادی نقل مکانی کرنے اور دوسرے علاقوں میں آباد ہونے پر مجبور ہے۔ بلوچستان میں ایسے سینکڑوں گاؤں ہیں جہاں جلی ہوئی جھونپڑیوں کی باقیات پاکستان کے مظالم کے گواہ ہیں۔ درجنوں اسکولوں اور کالجوں کو عارضی فوجی کیمپوں میں تبدیل کردیا گیا ہے جو بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھتے ہیں۔

سوال : بلوچ قوم اپنے مفادات کو ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگ کیوں محسوس کرتے ہیں؟

چیئرمین خلیل: میں ہی نہیں ، ہر باشعور فرد اور دنیا کا ہر پر امن ملک ہمارے خطے خصوصا کشمیر ، ہندوستان کے دوسرے علاقوں، افغانستان اور ایران میں پاکستان کی مذہبی دہشت گردی کی سرپرستی کے بارے میں فکرمند ہے۔ پاکستان پچھلے تیس سالوں سے نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے بلکہ لبرل بلوچ معاشرے کو بھی ایک بنیاد پرست معاشرہ بنانے کیلئے مذہبی پراکسیوں کا استعمال کیا ہے۔ بلوچ مذہبی پراکسیوں سے اتنا ہی خوفزدہ ہیں جتنا بھارت ہے۔ یہ عسکریت پسند اسلامی تنظیمیں جو ہندوستان میں امن کو سبوتاژ کررہی ہیں اور پاکستان فوج کے ساتھ یہ عسکریت پسند اسلامی تنظیمیں بھی لاپتہ افراد اور بلوچ عوام کے ماورائے عدالت قتل کے ارتکاب میں تعاون کر رہی ہیں۔

سوال : پاکستان کے سویلین حکومت کا ان مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ہے؟

چیئرمین خلیل: یہ فوج ہے جو پاکستان کے امور کو چلاتی ہے ، خاص طور پر اس کی خارجہ پالیسی۔ حکومت خواہ اس کی سربراہ عمران خان ہو یا نواز شریف یا کوئی اور ہو اس طرح کے معاملات میں اُن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ عالمی برادری کو [بلوچ معاملات میں] مداخلت کرنی چاہئے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ہندوستان کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے ایک آزاد بلوچستان کے لئے ہونے والے بلوچوں کی جدوجہد میں بلوچوں کی مدد کرے گی۔ مجھے توقع ہے کہ ہندوستان کی حمایت قلیل مدتی سیاسی مفادات پر مبنی نہیں ہوگی بلکہ بھارت کی حمایت اس خطے میں امن و استحکام لانے اور پوری آبادی کے خلاف مظالم کو ختم کرنے کے لئے انسانی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے۔

سوال: کیا 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بلوچستان، گلگت اور پاکستانی کشمیر کے حوالے سے اپنے یوم آزادی کی تقریر میں بات کرنے کے بعد سےکوئی تبدیلی آئی ہے؟

چیئرمین خلیل: نہیں۔ مودی صاحب کا بیان محض ایک بیان ہی رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کبھی کبھار کے بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ بیانات نہ ہندوستان کے لئے فائدہ مند ہیں اور نہ ہی بلوچوں کے لئے۔ کاش مودی صاحب کو جلد ہی احساس ہوجائے کہ اگر وہ بلوچ مقصد کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کے بلوچ زمین وسائل سے مالا مال ہے ہمیں خدشہ ہے کہ بلوچ ان کے تمام بنیادی حقوق سے محروم رہیں گے اور ہمیں تشویش ہے کہ بلوچ اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

سوال: چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق آپ کے خدشات کیا ہیں؟

چیئرمین خلیل: چین پاکستان اقتصادی راہداری بلوچستان کے لئے ایک سامراجی منصوبہ ہے ، چین کا کردار اسی طرح ہے جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان میں تھا۔ بلوچستان کا سارا ساحلی پٹی چین کے حوالے کردیا گیا ہے اور اسے چینی حکام کے زیر اقتدار ایک خود مختار زون میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس ساحلی خطے میں ہزاروں چینی اور پاکستان کے دوسرے حصوں سے لوگوں کی آمد جاری ہے۔ وہ اگلے پانچ دس سالوں میں بلوچوں کو اقلیت میں بدل دیں گے۔ ہم اس کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔

سوال : پاکستان نے دعوی کیا ہے کہ بھارتی شہری کلبھوشن جادھو جاسوس تھا۔ اس بارے میں آپکی رائے کیا ہے؟

چیئرمین خلیل: میں یقین سے دعویٰ کرسکتا ہو کہ کلبھوشن جادھو بلوچستان سے گرفتار نہیں ہوا۔

پاکستان پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کا الزام ہے۔ اس بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں

چیئرمین خلیل: پاکستان نے بار بار بھارت میں دہشت گردی کے حملے کرنے والے جیش محمد کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کیا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے پاس جیش محمد کےتربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کے لئے فضائی حملے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ پاکستان کا دہشت گردی کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کی عزم کی کمی کی وجہ سے امریکہ بھی پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

سوال: کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے متعلق پاکستان کے الزامات کتنے سچ ہیں؟

چیئرمین خلیل: میرے خیال میں کشمیر کا بلوچستان سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی بھارت بلوچستان میں مظالم کی بات کرتا ہے تو پاکستان حکومت بلوچ عوام کے خلاف اپنے مظالم کو جواز پیش کرنے کے لئے کشمیر کے نام کا استعمال کرتی ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانے کے لئے کشمیر کا نام استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ کشمیری گروہ مذہب کو اپنے مقصد کے لئے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بلوچ تحریک ہماری قومی شناخت پر مبنی ہے۔ مذہب کسی بھی جدید سیاسی تحریک کی اساس نہیں بن سکتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستانی عوام یہ جان لیں کہ اگر وہ اس مسئلے کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہ ان کو نقصان دیتا رہے گا۔ اُنہیں اس خطے کو ہمیشہ کے کئے پر امن بنانے کیلئے بلوچوں کی مدد کرنی چاہئے۔

چیئرمین خلیل بلوچ سے یہ انٹرویو نمرتا بجی آہوجہ نے ”دی ویک“ کیلئے کیا تھا جو دس دسمبر کو انگلش میں شائع ہوا ہے۔ یہ اس انٹرویو کا من و عن اردو ترجمہ ہے۔ انگلش کیلئے آپ ذیل میں دی گئی ”دی ویک“ کی لنک پر کلک کریں۔