بلوچ تحریک ابھرنے کا منتظر مگر
تحریر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پرانی بات ہے جس کا تذکرہ یوں بھی ضروری ہے کہ معروضی حالات اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ عرصہ قبل جب طاقت کا محور بلوچ تحریک تھا، ایک دیہی خاتون سے اچانک راہ چلتے ملاقات ہوئی۔ پیدل خاتون کمسن بچے کو کسی مولوی سے دم کرانے کے بعد واپس جارہی تھی، میں نے انسانی ہمدردی کے طور اسے لفٹ دیا۔ راستے میں ان سے مسلح تنظیموں کی بابت پوچھا کہ ان کے طریقہ کار سے وہاں کے لوگ کتنے بد زن ہیں۔ اس دوران ایک مخصوص ٹولے کی جانب سے مسلح تحریک پر سوشل میڈیا گالیوں کا میدان بنا تھا۔ خاتون کی بے ساختہ تعریف اور سرمچاروں کو دیئے نیک دعاوں سے میں ششدر رہ گیا۔ ان کے مطابق سرمچاروں کی وجہ سے علاقہ امن کا گہوارہ بن گیا ہے اور چوری ڈکیتی کا نام نہیں ہے۔ لوگوں میں سرمچاروں کے سبب آپس کی ناچاقیاں رنج و الم اور حتیٰ کہ دشمنیاں بھی دور ہوگئی ہیں، کیوںکہ سرمچار جہاں کچھ ایسا سنتے ہیں فوراً پہنچ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ چور ڈاکوٶں کو لگام دے کر غریبوں کو سکون مہیا کیا گیا ہے۔ خاتون کے بقول اب منشیات بھی نایاب ہے، جس کی وجہ سے ہمارے بچے ابتر حالی اور بیگانگی کا شکار تھے۔ یہ اس زمانے کی باتیں جب بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بلوچ تحریک اثر پزیر تھا اور عام لوگ اس سے متاثر تھے۔ پھر حالات میں بدلاو آیا طاقت کا توازن بدل گیا، جس مقام پہ تحریک کھڑی تھی وہ مقام دشمن کے پاس گیا۔
حالات کے بدلاو سے کچھ لوگوں کا خیالِ غلط ہے کہ بلوچ تحریک آزادی چوںکہ کمزور ہوگئی لہٰذا وہ اپنی من مانی اور ریاست سے پیوستہ پوشیدہ تعلقات کو ظاہر کرسکتے ہیں۔ یہ وہی عناصر اور گماشتے ہیں جو سرکار کے دلال تھے مگر ان کا کردار تحریک کی اثر پذیری کے سبب پوشیدہ تھا۔
یہ اچھی بات ہے کہ اس خیال غلط کے شکار وہ عناصر جو ریاست کی دلالی چوری چھپے کررہے تھے، اب خود کو ظاہر کردار کے طور پر سامنے لارہے ہیں۔ یہ بھی تحریک کا ہی حصہ ہے کہ اس کی اشکال ہمیشہ یکساں نہیں رہتیں بلکہ بدلتی رہتی ہیں۔ آج اور کل میں فرق پیدا ہوتا ہے، کل طاقت کس کے پاس تھا آج کون اس مقام پر کھڑا ہے، طاقت کا بدلاو کسی کی کمزوری نہیں بلکہ کمزوری اپنے مقام کو چھوڑنا اور فرار اختیار کرنا ہے، جہاں تک بلوچ تحریک آزادی کی بات ہے، اپنے مقام پر آج بھی محکم صورت میں کھڑا اور اپنے طریقے پر کاربند ہے، البتہ حالات کے بدلاو کو کمزوری سمجھنا نادانی ہے۔
جو کچھ ریاست کے پروردہ چیلے آج کرر ہے ہیں، ان کا مکمل حساب انہیں ہرحال میں دینا ہوگا، شاید اس میں کچھ وقت لگے مگر وقت کا رویہ ایک سا کبھی نہیں رہتا۔ انہیں اپنے کیئے اور دلالی کا یک بہ یک حساب بہرصورت دینا ہے۔
سمجھنے اور یاد رکھنے کی بات ہے کہ بلوچ تحریک کو سب سے بڑا نقصان نا ریاست پہنچا سکا، نا ریاست کے مقامی دلالوں میں اتنا دم خم تھا البتہ خود تحریک سے وابستہ ساتھیوں کے پے درپے سطحی اور غیر تحریکی حرکات بڑے نقصان کا سبب بنے، جس سے طاقت کا توازن بدل گیا اور بلوچ تحریک کو وقتی طور پر اپنی پوزیشن چھوڑنا پڑگیا۔
آج ریاست کو بلوچ تحریک کے مقابل طاقتور پوزیشن میں سمجھ کر ان کے دلال دیدہ دلیری کے ساتھ خود کو اپنے کردہ گناہوں کی صورت آشکار کیئے جارہے ہیں۔ تحریک سے متعلق ساتھیوں کا یہی رویہ اس وقت تھا جب وہ بلوچ مسلح مومنٹ کو ریاست کے مقابل طاقت میں دیکھ رہے تھے۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگا کر خود کو بہت نقصان پہنچایا گیا حالانکہ جو کام کرنے کے نہیں تھے وہ سرعام کیے جارہے تھے۔
ایک گوریلا کو پوشیدہ رہ کر جو کام کرنا تھا، وہ باقاعدہ اپنی شناخت کے ساتھ اسے کیئے جارہا تھا۔ یہ اپنی طاقت کو صحیح سمت میں موڑنے کے بجائے اندازہ لگانے کی غلطی تھی، جس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا، جس کے اثرات یہ ہیں کہ وہ پوزیشن جو چند سال پہلے ہماری تھی، اب دشمن کی ہوگئی ہے اور ہمارے مقام پر دشمن کھڑا ہے۔
پوزیشن کا بدلاٶ کسی بھی وقت دوبارہ ہوسکتا ہے، بس حالات کو اپنے حق میں موڑنے کے لیئے حکمت اور جنگی تدبر کی ضرورت ہے ایک منظم صورت میں خود کو سامنے لانا اور مسلح کے ساتھ سیاسی انداز میں بھی متحرک ہونا کامیابی کے لیئے لازمی ہے۔ یاد رکھا جائے کہ عام لوگ طاقت دیکھ کر ہمیشہ متاثر ہوجاتے ہیں، شعوری جڑت مخصوص طبقے کے لیئے ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، ایک زمانے میں پورا بلوچ معاشرہ تحریک کے زیر اثر تھا، عام لوگ چونکہ حالات سے متاثر ہوتے ہیں ان کا کوئی شعوری فیصلہ نہیں ہوتا، عام لوگ بڑی حد تک مسلح تنظیموں سے لے کر بی این ایم اور بی ایس او آزاد سے بہت متاثر تھے۔ بی این ایم اور بی ایس او پبلک میں متحرک تھے جلسہ جلوس اور ریلیاں وغیرہ ہوا کرتے تھے مگر غلطیوں کے سبب کمزوریاں غالب آگئیں۔
اس وقت ریاست بلوچ معاشرے میں کچھ ایسی بڑی غلطیاں کررہی ہے، اگر بلوچ لیڈرشپ نے وقت کا دھارا قابو میں کرلیا تو عوام کو ریاست سے متنفر بنانا ممکن ہوسکتا ہے۔ ریاست کی جانب سے سرعام چوری اور ڈکیتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جس کے اثرات سے بلوچ معاشرے میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔
ریاست کے پروردہ مسلح ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ سرعام بندوق تان کر لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ ڈکیتیوں کے پیچھے عام شخص نا صرف سرکاری گماشتگان کو سمجھتا ہے بلکہ عام لوگ نام لے کر مخاطب ہیں کہ یہ سب کچھ خفیہ اداروں کے لوگ کررہے ہیں۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور سماج کے نازک اقدار پر انگلی ڈالنے کا یہ اثر ہوا ہے کہ لوگ کھل کر ڈکیتی کی وارداتوں میں خفیہ اداروں اور آرمی کا نام لے رہے ہیں، جو سماج کچھ عرصہ قبل انہی خفیہ اداروں سے خوف زدہ تھا اپنے سماجی اقدار کی خلاف ورزی پر بول رہی ہے۔
عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں جو غلطیاں کریں، مگر وہ بلوچ کے سماجی اقدار کا محافظ ہیں، جس وقت طاقت کا رخ بلوچ مومنٹ کے پاس تھا ڈکیتیاں اپنی جگہ کہیں پہ چوری کی واردات با مشکل ہوتی تھی۔ چور اچکوں اور ڈاکوٶں پر بلوچ مسلح تنظیموں کا ایک خوف قائم تھا جس کی وجہ سے وہ چوری اور ڈکیتی کا سوچتے ہی کانپ جاتے تھے۔
گھروں میں گھس کر ڈکیتی کرنا چادر و چار دیواری کی پامالی اور خواتین کے ساتھ بد اخلاقی کجا سماج میں یہ ڈر کم از کم ختم ہوگیا تھا کہ راستے میں کسی کی گاڈی یا موٹر سائیکل چوری ہوگی یا وہ بیچ راستے میں لٹ جائے گا۔ یہ سب بلوچ تحریک کے مثبت اثرات تھے، ریاست اپنی غلطیوں سے موقع فراہم کررہا ہے کہ اس کی طاقت اس سے چھن جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔