یونیورسٹی آف بلوچستان میں طالبات کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ’یونیورسٹی میں سکیورٹی کیمروں کے ڈیٹا پر نہ صرف غیر متعلقہ افراد کی رسائی تھی بلکہ بعض ڈیٹا ان افراد سے بھی برآمد ہوا ہے۔‘
دو دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’یونیورسٹی میں جو خفیہ کیمرے لگے ہیں وہ صرف سکیورٹی مقاصد کے لیے تھے لیکن ان کے ڈیٹا پر نہ صرف غیر متعلقہ افراد نے رسائی حاصل کی بلکہ بعض مقامات پر غیر مجاز خفیہ کیمرے بھی لگائے گئے تھے۔‘
واضح رہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں طالبات کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ رواں برس اکتوبر میں اس وقت سامنے آیا تھا جب یونیورسٹی انتظامیہ نے چند ملازمین کو آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی تھیں۔
پیر دو دسمبر کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایف آئی اے اور یونیورسٹی حکام کے علاوہ دیگر وکلا بھی پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد
سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام نے سکیورٹی کمیروں کے ڈیٹا سے متعلق ایک اور رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔ اس رپورٹ میں ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ تحقیقات کے دوران یونیورسٹی سے ایک ایسی یو ایس بی اور ہارڈ ڈسک بھی برآمد کی گئی تھی جس میں قابل اعتراض ڈیٹا تھا۔
سماعت کے دوران بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یونیورسٹی حکام سے استفسار کیا کہ ’کیا سنڈیکیٹ کے فیصلے کے مطابق اس سلسلے میں محکمانہ انکوائری کی گئی؟‘
جس پر بلوچستان یونیورسٹی کے رجسٹرار شمس الرحمان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک یہ انکوائری نہیں کی گئی کیونکہ اس سلسلے میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کے سربراہ کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا۔‘
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’ایف آئی اے نے تحقیقات کے دوران کچھ غلط محسوس کیا ہے جس کی وجہ سے بعض افراد کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ بات درست نہیں ہے کہ یونیورسٹی کے واش رومز سے کوئی خفیہ کیمرہ برآمد ہوا ہے تاہم یونیورسٹی میں سکیورٹی کے مقاصد کے لیے لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں کے ڈیٹا کو غلط استعمال کیا گیا۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جو شخص خفیہ کیمروں کا انچارج تھا اس کا کام صرف سکیورٹی کی نگرانی کرنا تھا لیکن اس نے نہ صرف ان کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی بلکہ ان میں سے سلیکٹڈ ڈیٹا کو الگ کر کے اپنے پاس بھی رکھا۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سکیورٹی انچارج نہ صرف اس ڈیٹا کو اپنے پاس رکھنے کا مجاز نہیں تھا بلکہ یہ ڈیٹا ایک تیسرے شخص کے گھر سے بھی برآمد ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی میں کیمرے سکیورٹی کے لیے لگائے گئے تھے۔ اگر ان کا سکیورٹی کے علاوہ استعمال کیا جاتا ہے تو یہ جرم ہے۔‘
چیف جسٹس نے یونیورسٹی حکام سے استفسار کیا کہ ’جس شخص کو چوکیداری کی ذمہ داری دی گئی تھی اگر اس نے سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا غلط استعمال کرنے کے علاوہ خفیہ کیمرے بھی لگائے تو کیا یہ اعتماد کو نقصان پہنچانا نہیں۔‘
عدالت عالیہ نے یونیورسٹی کے حکام سے یہ بھی پوچھا کہ انھوں نے خفیہ کیمروں کے ڈیٹا کو غلط استعمال کرنے کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی۔
عدالت نے ایف آئی اے کے حکام سے استفسار کیا کہ برآمد ہونے والی یو ایس بی اور ہارڈ ڈسک کی فرانزک رپورٹ اب تک کیوں نہیں پیش کی گئی۔
جس پر ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ’اس ضمن میں برآمد کردہ یو ایس بی اور ہارڈ ڈسک کو کراچی بھیجا گیا ہے تاہم وہاں سے ابھی تک فرانزک رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔‘
ایف آئی اے نے فرانزک رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو 18دسمبر تک فرانزک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم یونیورسٹی حکام کی جانب سے تاحال ذمہ دار افراد کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ جس پر یونیورسٹی حکام نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایف آئی اے کی رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کریں گے۔
عدالت عالیہ نے فریقین کے وکلا کے دلائل کے بعد تحریری حکم نامے میں کہنا تھا کہ درخواست دہندہ کے وکلا نے موقف اپنایا ہے کہ یونیورسٹی کے چند حکام نے خفیہ کیمروں کے ڈیٹا کے حوالے سے خیانت کی ہے جو سائبر کرائمز ایکٹ کے سیکشن تین، چار اور دیگر دفعات کے تحت جرم ہے۔ وہ اس بنیاد پر ان حکام کے خلاف کاروائی چاہتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا ان حکام کے خلاف فوجداری اور محکمانہ کاروائی کی ضرورت ہے اس لیے یونیورسٹی اور ایف آئی اے حکام اس سلسلے میں ضروری کارروائی کریں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں یہ معاملہ رواں برس اکتوبر میں اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی کے بعض ملازمین کو آﺅٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئی تھیں۔
یونیورسٹی کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق ان ملازمین میں یونیورسٹی کا ایک ایسا اہلکار بھی شامل تھا جو کہ پہلے پانچویں گریڈ سے کم کا معمولی سکیورٹی گارڈ تھا لیکن بعد میں انھیں قواعد کے برعکس گریڈ 15 میں ترقی دے دی گئی تھی۔
اس ملازم کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ اسے یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں تک بھی رسائی دی گئی تھی۔
یونیورسٹی کے ایک اور ملازم نے اس اہلکار کی ترقی کو کورٹ میں چیلنج کیا جس کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کا غلط استعمال ہو رہا ہے، جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔