بلوچستان کے سیاسی اپاہج
تحریر: امجد دھوار
دی بلوچستان پوسٹ
سی پیک جو دنیا کا اقتصادی و ترقیاتی منصوبوں میں سے ایک ہے، جسکی ابتدائی مالیت 46 ارب ڈالر ہے جو آگے بڑھ کر 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہوگی، کبھی اسے پاکستان چائنا دوستی کے نام کے نعروں سے نمایاں کیا جاتا ہے، پاکستان کی حکومت سی پیک منصوبے پر 1993 سے رپورٹ پیش کرتا آرہا ہے مگر اسے عوام سے بہت دور رکھا گیاہے، دوسری طرف بلوچستان حکومت کی طرف سے ایک ایسا سیاسی ٹولہ تیار گیا ہے، جو اس کام میں چائنا اور پاکستان کا مددگار ہو رہا ہے، جیسا کہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں جو اپنے اپنے ذاتی مفادات اور کروڑوں روپوں کی لوٹ مار کی خاطر سی پیک کو کامیاب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
بقول انور ساجدی بلوچستان کی سیاسی پارٹیاں NGOs کا کام کر رہی ہیں، یہ وہ لوگ ہے جو کچھ پیسہ خرچ کرکے بہت کچھ کمانے کے چکر میں ہوتے ہیں، جن کا دین اور ایمان پارلمینٹ کی کرسی ہے اور وہ اپنے اس لالچ اور اپنے آپ کو خوش کرنے کے چکر میں خود ہی اپنے گھر کو آگ لگا رہے ہیں، مگر یہ سیاسی اپاہج اس بات سے انجان ہیں کہ آنے والے وقتوں میں انہیں بڑی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ ان کے بڑوں نے گھٹنے ٹیک کر غلامی کو ترجیح دی تھی، اب یہی لوگ اپنے باپ دادا کی وہی وفاداریاں نبھا رہی ہیں، جنہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ وہی گودار ہے جس کا سودا تم لوگ کچھ ہی پیسوں کی وجہ سے کر رہے ہو، مجھ جیسے کسی کی سوچ کی بس سے باہر ہے کہ تم جیسے لوگ گوادر کو اتنا سستا سودا کیوں کر رہے ہو یا یہ تمارے اپاہج ذہنیت کی وجہ سے تمہاری گنتی ہی اتنی کم ہے یا تمہاری سوچ ہی اتنی چھوٹی ہے کہ کچھ پیسوں کی خاطر گوادر کا سودا کر رہے ہو جو قوم کی ملکیت ہے اور ساری دنیا کی نظریں گوادر پر ہے۔
قوم آج جس مقام پر ہے جہاں سی پیک کامیاب ہونے سے قوم کا وجود ہی ختم ہوگا، دنیا میں آج تک کوئی ایسے سوچ کا قوم نظر نہیں آیا، جو اپنے نام، اپنے وجود کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہو، مگر ہمارے سیاسی اپاہجوں کو ان کی مکاری اور سیاہ ایمانی کی وجہ سے اونٹ کے اوپر بھی سانپ کاٹ رہی ہے۔ یہ وہی گمراہ لوگ ہیں، جو بلوچستان میں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے میں اپنی اپنی وفاداری نبھانے کی کوشش میں ہیں، کل کو انہی لوگوں کو انہی عمارتوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی، اگر یہ لوگ جو بڑے بڑے عمارتوں میں جانے کے شوقین ہیں، جو اپنے لوگ، اپنے قوم پر ظلم تشدد کرنے کو فخر سمجھتے ہیں، مگر جب ان بڑی بڑی عمارتوں میں جاتے ہیں تو جانے کے وقت اپنی موچھیں کاٹنے کے ساتھ ساتھ ہر چار قدم پر تلاشی بھی دیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے قوم کے خان، نواب، سردار، بادشاہ ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے عمارتوں میں ان کی مردانگی نہیں رہتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو چار چوکیداری پر گوادر کا سودا کر رہے ہیں مگر یہ اس بات کو اپنے ذہن میں اچھی طرح رکھ دے تم لوگ اپنے قوم کے صادق او جعفر ہو، تمہاری عزت یہی ہے اپنے ہی گھر میں تلاشی دے کر فخر محسوس کرتے ہو، یہی تمہاری فرعونیت کی نشانی ہے۔
گودار جسکا سودا چار چوکیدایوں پر کر رہے ہو اس سے آپ کی ثقافت اور وجود ہی ختم ہو گی، تمہاری یہی سیاسی اپاہج ذہنیت کی وجہ سے قوم کا نام ہی دنیا سے مٹ جائے گا، یہ قوم ایٹم بم کے بغیر ہی تباہ ہو جائے گا، آج آپ کی حیثیت ایک جونیئر کھلاڑی کی ہی نہیں ہے اور آپ گودار کا سودا کر رہے ہو گودار بلوچستان میں بسنے والے بلوچوں کی ماں ہے کسی ماں کو سودا کرنا نا ممکن ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔