بلوچستان میں لیبرز لاء پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے- این ڈی پی

205

نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ضلع لسبیلہ وسائل کے حوالے میں بلوچستان کے امیر ترین اضلاع میں سے ایک ہے یہاں مدنیات قیمتی پتھر ، زاعت کے علاوہ صوبے کا واحد صنعتی زون بھی ہے جوکہ سرمایہ داروں کے توجہ کا مرکز ہونے کے ساتھ ملکی معیشت میں بڑھورتی کا اہم زریعہ ہے لسبیلہ کی انڈسٹری ،ہائیٹ ، ماربل سٹی ، وندر انڈ سٹریل ایریا ،دی حب پاور (حبکو) ، دی حب پاور چائنا جنریشن لیمیٹڈ (کول پاور پروجیکٹ ) ڈی جی خان سیمنٹ ،اٹک سیمنٹ فیکٹری ،گڈانی شپ برکنگ یارڈ پر مشتمل ہے صنعت کار ،لیبر ڈپارٹمنٹ ,سوشل ویلفیر , و دیگر متعلقہ سرکاری ادارے اور علاقے کے بااثر افراد کے ملی بھگت سے مزدوروں کا بد ترین استحصال کرتے ہیں بلکہ صنعتیں بیگار کیمپ کی مانند ہیں جہاں نہ مستقل ملازمت دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی مراعات، مزدوروں کی اکثریت ٹھیکیداری سسٹم کے زیر عتاب ہیں کام کرنے کے اوقات کار آٹھ گھٹے کے بجائے بارہ بارہ گھنٹے ہیں مزدوروں کو نہ اولڈ ایج بی نہ سوشل سیکیورٹی دی جاتی ہے اور نہ ہی کام کرنے کرنی جگہ سیفٹی کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہے اور دیگر مراعات جوکہ آئینی اور قانونی طور محنت کشوں کی بنیادی حقوق ہیں جن کو ٹھیکیدار فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکمے مل کر سلب کرتے ہیں ،یونین سازی مزدوروں کا بنیادی حق مگر اس پر بھی قدغنیں ہیں یونین سازی کا عمل اس قدر پیچیدہ ہے کہ کے محنت کشوں بہت جتن کرنے پڑتے اس لئے چند فیکٹریوں کے علاوہ باقی تمام فیکٹریوں میں مزدوروں کی کوئی یونین نہیں ہے انڈسٹریل اور لیبر لاز کی مطابق فیکٹریوں میں 75% ملازمتوں پر مقامی افراد کا حق ہے علاوہ صنعت کار کو علاقے میں سماجی بہبود کام کرنے ہوتے ہیں صنعتوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی ہوتی ہے اس کے تدارک یا اثرات کو کم کرنے کی خاطر شجر کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے مگر اسکے متعلق صنعت کاروں سے کوئی پھوچنے والا نہیں ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی نے مقامی افراد کے روز گار کے حوالے سے متعدد بار قراردادیں منظور کی ہیں مگر آج تک ان پر عمل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی باز پڑس کرنے والا ہے تو دوسرے طرف حکمرانوں کی نا اہلی بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آٹھارویں ترمیم کے بعد آج تک بلوچستان گورنمنٹ لیبر لاز نہیں بنا سکی حکمران اسمبلیوں لمبی تقریریں تو کرتی ہیں مگر غریب بیکس اور نادار محنت کشوں کی قانون سازی تک نہیں کر سکتے جو ملک پیہ چلاتے ہیں گزشتہ بجٹ میں کم از کم تنخواہ 17500 کا اعلان کیا گیا تھا مگر آج تک اس کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا ہے
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں کے لئے رہائش کا انتظام نہیں ہے پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں مزدور پیسوں سے پانی خریدتے ہیں. ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے انتظام نا ہونے کے برابر ہیں حالانکہ شپ بریکنگ یارڈ اگر رننگ میں ہو تو اس سے سالانہ 20 سے 25 عرب روپے کا روینیو وفاقی حکومت کو حاصل ہوتھی ہے اور 20 سے 25 کروڑ بلوچستان حکومت کو آمدن ملتی ہے اس کے باوجود یارڈ کے محنت کش انتہائی کٹھن حالات میں کام کرتے ان کے بارے نہ حکمرانوں کو کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی سرمایہ داروں کو بلکہ محنت کشوں کا خون نچوڑ کر اپنی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں نا اہل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ شپ بریکنگ کی صنعت تباہ حالی کا شکار ہونے کی وجہ سے محنت کش بھی بے روز گاری کا شکار ہیں ان کے لئے حکومت کے پاس متبادل زورگار کا کوئی منصوبہ بندی نہیں۔

ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں لیبرز لاء کے حوالے سے سنجیدہ ہوکر کام کرنا ہوگا۔