بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دل مراد بلوچ نے مقبوضہ بلوچستان کی صورت حال پر مبنی ماہانہ رپورٹ میڈیا میں جاری کرتے ہوئے کہا کہ ماہ نومبر میں ریاستی فورسز نے بلوچستان بھر میں 32 ملٹری آپریشنز اور چھاپوں کے دوران درجنوں گھروں میں لوٹ مار کی، 38 افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔ اسی مہینے 16 نعشیں ملیں جس میں سے ایک بزرگ بلوچ کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے خاران میں فائرنگ کر کے شہید کیا جبکہ دیگر 15 نعشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔
نومبر کے مہینے میں پاکستان کی خفیہ زندانوں سے دس لاپتہ افراد بازیاب ہوئے۔ ان میں دو افراد 2016 سے، تین 2018 اور پانچ 2019 سے فورسز کی حراست میں تھے۔
دل مراد بلوچ نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ کئی سالوں سے یہ واضح کرتا چلا آرہاہے کہ پاکستان بلوچ قومی تحریک کے سامنے بے بس ہوکر اجتماعی سزا کے بھیانک اور بربریت پر مبنی جارحانہ حکمت عملی پر شدت کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت بلوچ قوم کواجتماعی طورپر تحریک آزادی سے دست بردار کرانے کے لئے اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے، سرگرم جہدکاروں کے رشتہ داروں اورعزیز واقارب کو اس حکمت عملی کا نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر اس پالیسی کے تحت بے شمار لوگ قتل ہوئے، ہزاروں گھر جلائے گئے۔ اب خواتین کی قید و بند اور تشدد روز کا معمول بن چکا ہے۔ نومبر مہینے کے آخر میں آواران سے چار بلوچ ماؤں نازل، حمیدہ، سکینہ اور بی بی سیدہ کو حراست میں لے کر پہلے حسب معمول لاپتہ اور بعد میں ایف آئی آر کرکے خضدار سینٹرل جیل منتقل کیاگیا۔ بیس سالہ تشدد کی تاریخ میں ہزاروں لوگ بشمول خواتین اور بچے حراست بعد لاپتہ کئے گئے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس ایف آئی آر میں تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ خواتین سے اسلحہ برامدگی محض ایک ڈرامہ ہے کیونکہ ایف آر میں شامل نازل بلوچ اور اس کے رشتہ دار خواتین کو پہلے بھی پاکستانی فوج نے اُٹھا کر کئی دن لاپتہ رکھ کر تشدد کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ اب مہذب دنیا کو یقین ہونا چاہیئے کہ پاکستان میں انسانی اقدار اور قانون کی پابندی ناپید ہوچکی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کے ادارے ان جرائم کا نوٹس لیں۔
انہوں نے کہا بلوچ قوم کو یہ احساس ہے کہ غلامی کی ذلت آمیز زندگی میں ایسے مزید بُرے دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ یہ احساس بلوچ قوم کا سرمایہ ہے۔ اس سے حوصلہ پاکر قومیں غلامی کے تاریک راہوں میں آزادی کے جستجو کیلئے آگے بڑھتی ہیں۔ اسی طرح غلامی سے نجات تک بلوچ قوم کے جذبات میں بھی کمی نہیں آئے گی۔ خواتین کے ساتھ اس بہیمانہ سلوک نے پاکستان کے غلیظ چہرہ کو مزید بے نقاب کر دیا۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ ستر سالہ غلامی اور موجودہ تحریک کے بیس سالہ دورانیہ میں بلوچوں نے مشکل سے مشکل ترین حالات دیکھے ہیں۔ اس دشمن کی تاریخ کو مدنظر رکھ کر اس سے بھی مزید بدتر حالات کا ہی توقع کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف بلوچ قوم بھی اس ذلت آمیز قومی زندگی سے نجات کا فیصلہ کر چکی ہے۔ ہم بحیثیت قوم ان حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ پاکستانی بربریت کاشکار ہمیشہ نہتے لوگ اور خواتین و بچے بنے ہیں مہذب دنیا سوچ بھی نہیں سکتی اس جدید دور میں انسانی حقوق کی اس پیمانے پر خلاف ورزی کی جاسکتی ہے لیکن بلوچ قوم کے ساتھ دن کی روشنی میں دنیا کے سامنے یہ سب کچھ ہورہاہے،بلوچ میڈیا سے محروم اور دنیا کے نظروں سے اوجھل ظلم کی چکی میں پس رہاہے،مہذب کہلائے جانے والے دنیا کو اس امر کا احساس و ادراک کرنا چاہئے کہ انسانی حقوق کی خلاف وزری کا سدباب انسانیت کا مشترکہ ذمہ داری ہے اور عالمی برادری کی اپنی اس بنیادی فریضہ سے مزید روگردانی بلوچ قوم کے لہو سے ہولی کھیلنے کا پاکستان کو لامحدود موقع فراہم کرے گا۔
نومبر کے مہینے کی تفصیلی رپورٹ
یکم نومبر
دشت میں پاکستانی فوج کا بڑے پیمانے پر آپریشن۔
نوشکی پاکستان کے ہاتھوں لاپتہ نوجوان نذیر احمد ولد محبت اللہ جمالدینی تین سال بعد بازیاب ہوگئے، نذیر احمد کو پاکستانی فوج نے 28 جنوری 2016 کو نوشکی سے حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
مشکے کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن،لوگوں پر تشدد
گوادرکے مختلف علاقوں میں بڑے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن۔
دو نومبر
آواران کے علاقے چیری مالار کرک ڈھل سے پاکستانی فوج نے دوستین ولد ریاض کو حراست میں لینے میں کے بعد لاپتہ کردیا۔
کیچ شہرمیں پاکستانی فوج نے شہید نعیم کے گھر پر چھاپہ مارکر اس کی بیوہ کو حراست میں لینے کی کوشش کی موقع پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچ گئیں لیکن انہیں بار بار ہراساں کیاجارہاہے۔
تین نومبر
آواران کے علاقے ماشی کے چیک پوسٹ پر ایک نوجوان امتیاز ولد عبدالکریم کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا امتیاز کو 30اکتوبر کو حراست میں لے گیا تھا جس تصدیق آج کی گئی۔
کیچ سے پاکستانی فوج نے واحد ولد مراد سکنہ آشال کولواہ کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
چار نومبر
نوشکی کے نواحی علاقے میں محمد رمضان حلیم نے فائرنگ کرکے اپنے بھائی کلیم اللہ کو قتل کردیا۔
کوئٹہ سے اغواء ہونے والے پشتون نوجوان غوث اللہ ولد کریم آغا کا لاش قلعہ عبداللہ سے بر آمد ہوا،غوث اللہ ولد کریم آغا 14 اگست کو پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیاتھا جس کے بعد ان کے لواحقین نے اس کو تلاش کی لیکن کوئی معلومات نہیں مل سکی۔
پانچ نومبر
نوشکی میں آزات جمالدینی لائبریری سے پاکستانی فوج نے نوجوان سلال جمالدینی ولد منان کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
چھ نومبر
کیچ کے علاقے بلوچ آباد سے پاکستانی فوج نے علی ولد حنیف کوحراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
سات نومبر
گوادر پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے جمعہ اور راشد ولد محمد حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے،ان کوگوادر کے علاقے جیونی سے 9اگست کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا تھا۔
آٹھ نومبر
چار نومبر کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے سلال جمالدینی حراست سے بازیا ب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
پنجگور سے تین سال قبل حراست بعد لاپتہ ہونے زامران کے رہائشی فخر الدیں حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
نو نومبر
کیچ کے علاقے مند گوبرد میں پاکستانی فوج نے آپریشن کا کرکے دو افرادصغیر ولد صالح محمد اور تلال ولد امام بخش کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
دس نومبر
خاران کے علاقے کلاں میں پاکستانی فوج کے ڈیتھ سکواڈنصر اللہ ولد نیک محمد جان کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔
کیچ کے علاقے دشت سے پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر عثمان ولد ماسٹر سخی اور شریف ولد سلیم کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
گیارہ نومبر
مشکے کے علاقے کوہ اسپیت میں پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
تیرہ نومبر
کولواہ کے علاقے ڈنڈار،مادگ قلات،میں پاکستانی فوج نے آپریشن کرنے کے ساتھ گھروں میں لوٹ مار کی
چودہ نومبر
گوادر کے علاقے نیا آباد سے ابوبکر ولد نبی بخش کی لاش بر آمد ہوئی ہے ہلاکت کے محرکات معلوم نہ ہوسکیں۔
آٹھارہ نومبر
گوادر سے پاکستانی فوج نے بلوچی زبان کے شاعر اور صاحب کتاب عبید عارف کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
گوادر کے علاقے پسنی میں مسلح افراد کی فائرنگ سے قادربخش ہلاک ہوگئے اور ایک شخص زخمی ہوامحرکات معلوم نہ ہوسکیں۔
کیچ کے علاقے سنگ آباد سے پاکستانی فوج نے ضعیف العمر شخص میران ولد سردواور اس کے جوانسال بیٹے الیب کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
انیس نومبر
کوئٹہ سے احمد ضیا ء ولد نوید نامی شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔محرکات معلوم نہ ہوسکیں
بیس نومبر
دکی میں مسلح افرادکی فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہوئے۔محرکات معلوم نہ ہوسکیں۔
پاکستانی فوج نے کوئٹہ سے عبدالرشید ولد عبدالخالق کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
اکیس نومبر
لولارائی سے دو افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئی ہیں دونوں کو گزشتہ روز اغواء کیا گیا تھا۔محرکات معلوم نہ ہوسکیں۔
کیچ کے علاقے تمپ کونشکلات کے رہائشی امیر بخش ولد ماسٹر بابوعلی بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے جنہیں 11اکتوبر 2019کوپاکستانی فوج نے حراست میں لینے کے بعدلاپتہ کیاتھا۔
نوکنڈی سے تعلق رکھنے والے محمد انور ولد چاکر حراست سے بازیاب ہو کر گھر پہنچ گیا جنہیں پاکستانی فوج نے 22دسمبر 2018کوحراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیاتھا۔
دالبندین سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں دس ماہ قبل لاپتہ ہونے والے شیر زمان محمد حسنی سکنہ دالبندین حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
بائیس نومبر
نصیر آباد میں فائرنگ کے واقعات میں خاتون جان بحق ہوگئی۔ قتل کے محرکات پرانی دشمنی ہے۔
چوبیس نومبر
دکی سے نوجوان مجیب اللہ کاکڑ کی لاش ہڑیاں سلیزئی کے مقام سے بر آمد ہوا،جسے ایک ماہ قبل نامعلوم افراد نے اغواء کیاتھا۔
کیچ کے علاقے نذر آباد میں پاکستانی فوج علی جان قومی کے گھر پر چھاپہ مارکر دو سگی بہنیں مسماۃ سدو اور مسماۃ سہیلہ کو اغواء کرنے کی کوشش کی۔
سبی میں مسلح افراد کی فائرنگ سے غلام محمد ولد عبدالخالق ہلاک ہوگے۔محرکات معلوم نہ ہوسکیں
پچیس نومبر
کیچ کے علاقے بلیدہ میں پاکستانی فوج کا آپریشن،راستوں پہ ناکہ بندی۔
کوئٹہ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے عبدالراشد ولد عبدالخالق حراست بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
پنجگور علاقے کیلکور کے رہائشی سترسالہ بزرگ کچکول ولد علی کوپاکستانی فوج ہنگول چیک پوسٹ سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
ستائیس نومبر
کیچ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے بلوچ ماں نورجہاں قومی نے نے کہا کہ پاکستانی فوج بیٹی کی گرفتاری کے لئے پاکستانی فورسز روزانہ گھر پر چھاپہ مار تے ہیں۔
کیچ کے علاقے پل آباد تمپ کے رہائشی نزیر ولد عبدالمجید بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے جنہیں 23دسمبر2018کو پاکستانی فوج نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔
کو ئٹہ اسپانی روڈ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے محمد صدیق ولد عبداللہ ہلاک ہوگئے،محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
کیچ کے علاقے تمپ ملانٹ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں 28اکتوبر 2018کوحراست بعد لاپتہ ہونے شہداد ولد غوث بخش بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
اٹھائیس نومبر
قلات سے ضعیف العمر شخص کی لاش بر آمد ہوئی،نام و ہلاکت کے محرکات معلوم نہ ہوسکیں۔
آواران سے پاکستانی فوج نے دو طالب ساجد ولد قادربخش اور پرویز ولد صادق کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
کیچ کے علاقے بلیدہ سے پاکستانی فوج بلوچی کے شاعر محمد علی جوہر کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا بعد ازاں انکو چھوڑ دیا۔
انتیس نومبر
ڈیرہ بگٹی سے پاکستانی فوج نے خواتین اور بچوں سمیت تیرہ افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا حراست بعد لاپتہ ہونے والے شناخت شاہ گل ولد شاہ نواز بگٹی،شا د علی ولد شاہ داد بگٹی میرو ولد گبرو بگٹی پھوگو ولد مزار ہاں بگٹی، ہوندا ولد جاڑا بگٹی،نصیبو ولد زرک بگٹی ترکمان ولد زرک بگٹی شاہ میر ولد بخت علی بگٹی سمی خاتون زوجہ زرک بگٹی نصیبو زوجہ بخت علی بگٹی اور در بی بی دختر بخت علی بگٹی کے ناموں سے ہوا ہے۔
واشک سے کمال ولد بہادر شاہ نامی شخص کی لاش بر آمد ہوئی ہلاکت کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے
آواران سے پاکستانی فوج نے دوخواتین بی بی سکینہ بنت میردوست اور سید بی بی بنت جیئندکو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا
پنجگور سے پاکستانی فوج نے چار افرادمحمد ولد غلام حسین،برکت ولد لیاقت عزیر ولد علی بخش اور شیرو ولد عیسی کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے،ان میں سے محمد کو پروم کے علاقے کلشن سے اور باقی پروم اور زامران کے درمیانی علاقے بسد سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
تیس نومبر
آواران سے پاکستانی فوج نے دو خواتین بی بی حمیدہ ولد دلبود اوربی بی نازل ولد میر زمان کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا۔