بلوچسان کے مقامی اخبارات کے مسائل
تحریر: امجد دھوار
دی بلوچستان پوسٹ
اردو میں اخبار ایسی اشاعت کو کہتے ہیں جس میں خبریں چھپتی ہیں، جس میں سیاست، تہذیب، سماج، تجارت اور مختلف شعبوں کی خبریں شائع ہوتے ہیں، کسی واقعے کا براہ راست بے لاگ اور صحیح بیان جس میں بہت سے افراد کو دلچسپی ہو، صیح خبر ایسے واقعے کا بیان ہے جس میں کوئی تبصرہ نہ ہو، کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو، کسی ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا گیا ہو، کوئی حقیقت مسخ نہ کی گئی ہو اور اپنی جانب سے کسی بات کا اضافہ نہ کیا گیا ہو، طرز تحریر موثر اور دل نشین ہونا چاہیئے بعض خبریں مقامی اہمیت کی ہوتی ہیں۔
بلوچستان جو بہت وسیع علاقہ ہے جہاں بہت سے مقامی اخبارت چھپتے ہیں، جن میں روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی, دی بلوچستان ایکسپرس, اور توار کے ساتھ ساتھ بہت سے مقامی اخبارت ہیں جن کو دیکھا جائے یہ بلوچستان کے اپنی نیشنل اخبارات ہیں کیونکہ اکثر ان میں بہت سے اخبارت اپنے وطن کی زبان بولتے ہیں، ان میں کچھ اخبارت کو حکومت کی طرف سے بین بھی کیا گیا ہے، جن میں توار بھی شامل ہے، جس کا چیف ایڈٹر خادم لہڑی ہے، جو بند ہونے کے بعد بھی آن لائن پبلش ہوتا تھا مگر ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد بھی یہ اخبار آن لائن پبلش نہیں ہو رہا ہے۔
اسی طرح مقامی اخبارت کے چیف ایڈیٹرز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ انکشاف کیا کہ ہمارے اخبارت کو سرکاری ایڈز بہت ہی کم ملتے ہیں، جو ہمارے اخبارت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ٹوٹ رہی ہے، بہت سے مالکان اخبارت اپنی مدد آپ کہ تحت اخبارات چلا رہے ہیں، کیونکہ بلوچستان میں پرائیوٹ انڈسٹریز تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مالکان نے یہ بھی کہا کہ ہمارے اخبارت کے ایڈز جنگ اور مشرق جیسے اخبارت کو دیئے جاتے جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ اخبارات سندھ اور پنجاب کے اخبارت ہیں، مگر بد قسمتی ہے ہمارا حق انہیں دیا جاتا ہے، جو ہماری سوچ سے بالاتر ہے۔ ڈی جی پی آر کی طرف سے ہمیں جو ایڈز ملتے ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان کی ادئیگی بہت دیر سے ہوتی ہے، انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری نے بھی ہمارے ساتھ کھوکھلے وعدے کیے مگر جب سیاسی پارٹیوں کے بیانات کی باری آتی ہے تو ہر کوئی یہی چاہتا ہے ان کی خبروں کو لیڈ اور سوپر لیڈ کی حثیث مل جائے مگر ہمارے ساتھ کاپریٹ کوئی بھی نہیں کرتا۔
کوئٹہ پریس کلب کے صحافیوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم اپنے ایک کام کی جگہ اپنے اپنے اخبارت کیلئے کئی کام کرتے ہیں، مگر ہمیں اپنی تنخواہ بھی نہیں ملتی ہے اگر ملتی بھی ہے تو پانچ ہزار سے زیادہ نہیں، مالکان ہر وقت ایڈیٹرز کا رونا روتے ہیں، جن کی یہ بات کافی حد تک ٹھیک بھی ہے، دوسری طرف سے ہمیں کئی حلقوں سے خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں، جس کی زد میں آکر ہمارے کئی ساتھی بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں، بہت سے ایسے حلقے ہیں جن کی بیانات تو اب اخباروں میں چھپتے ہی نہیں جو سراسر غلط ہے کیونکہ آزادی صحافت ہمارا حق ہے، جو صحیح ادا نہیں ہو رہا اگر دیکھا جائے تو یہ زرد صحافت ہے جو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے جس کے حق میں ہم بالکل بھی نہیں ہیں۔
مالکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جن میں مالی مسائل کی وجہ سے ہمارے اخبارت نہیں پہنچ پاتے یا پہنچ بھی پاتے ہیں تو بہت دیر سے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے جرنلسٹس کا بھی یہی کہنا ہے کے ہمارے آرٹیکلز بھی نہیں چھپتے تو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت سوشل میڈیا پر اپنے اپنے بلاگ اور پیجز بنائے ہوئے ہیں، جن پر ہم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جن میں سے ایک کا کہنا تھا میرا پیچ جو دی بلوچستان پوسٹ کے نام سے ہے اسے بھی کئی مرتبہ بلاک کیا گیا ہے، ہم بلوچستان کے اخبارت کی جگہ اب اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے انٹرنیشنل اخبارت کی مدد لیتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔