بلوچستان کے ضلع آواران میں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشن، دوران آپریشن علاقوں کو محاصرے میں لیا گیا جبکہ خواتین سمیت متعدد افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ذرائع کے مطابق آپریشن کولواہ کے علاقوں جت اور آتراپ میں کی گئی جہاں فورسز نے شکیل ولد رئیس اور ناصر ولد سعید کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کردیا جبکہ اس دوران دو خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق فورسز کی تشدد سے دو خواتین کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے جن میں سے ایک کی پاؤں اور ایک کی بازو ٹوٹ چکی ہے۔
خیال رہے آواران سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فورسز کی جانب سے فوجی آپریشنوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم سرکاری سطح پر ان آپریشنوں کی تصدیق یا تردید دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
آخری اطلاعات تک کولواہ اور گردونواح کے علاقے فورسز کے محاصرے میں ہے جبکہ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری دلمراد بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اس حوالے سے کہا ہے کہ آواران، کولواہ کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوجی کی کاروائیوں کو تیز کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وحشی اور دہشت گرد فوج گذشتہ ہفتے سے مسلسل بے گناہ افراد پر تشدد کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کی اولین ذمہ داریوں میں بلوچستان میں انسانیت کی حفاظت ہونی چاہیئے۔
Pakistani military operations are intensified in different areas of Kolwah, Awaran.The savage and terrorist army is continuously torturing innocent people since last week. It must be the foremost obligation of the international community to protect humanity in #Balochistan.
— Dil Murad Baloch (@DMBaloch_) December 27, 2019
بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران تشدد کا یہ پہلا موقع نہیں ہے رواں مہینے کے اوائل میں آواران ہی کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران چار خواتین کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام مقام پر منتقل کردیا گیا تھا جن کو بعدازاں منظر عام پر لاکر بلوچ مسلح تنظیموں کے سہولت کار کے طور پر کیا گیا تاہم بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے جبکہ خواتین و بچوں کی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں گمشدگیوں کے واقعات رپورٹ ہوچکی ہے۔ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں سمیت بلوچستان حکومت کو سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے ان واقعات پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔