آواران سے گرفتار خواتین رہا کردیے گئے

736

بلوچستان کے ضلع آواران سے گذشتہ دنوں گرفتار ہونے والی چار خواتین کو رہا کردیا گیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے خواتین کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اغواء کی گئی چار خواتین کو رہا کردیا گیا ہے۔

 خیال رہے ان چار خواتین کو بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیویز فورس کی جانب سے جاری کی گئی ایک تصویر میں گرفتارخواتین کے ساتھ اسلحہ بھی دکھایا گیا تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے مذکورہ خواتین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان خواتین کو چھان بین کے بعد اٹھایا گیا۔ ان کے بقول گرفتار خواتین کو قانونی کارروائی کے لیے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

بلوچ سیاسی و سماجی جماعتوں کے مطابق مذکورہ خواتین کو پاکستانی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے مختلف علاقوں سے چوبیس گھنٹوں کے دورانیے میں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا جنہیں بعدازاں الزامات کے تحت لیویز فورس کے ذریعے منظرعام پر لایا گیا۔

پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جانب سے واقعے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں پارٹی اراکین نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران سخت احتجاج کیا جبکہ ہفتے کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بی این پی کے مرکزی کال پر مظاہرے کیے گئے جہاں بلوچ خواتین کی گرفتاری کی مذمت کی گئی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے خواتین کی گرفتاری کو المیہ قرار دیتے ہوئے کہا بلوچستان ایک ایسے انسانی المیہ سے دوچار ہے جس کے اثرات کی وجہ سے بلوچستان میں رہائش پذیر ہر فرد ڈر، خوف اور پریشانی کے عالم میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دو ہزار نو سے جاری ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل عام کے واقعات وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں لیکن اس فعل پر خاموشی نے بلوچستان کو ایک غیر انسانی صورتحال سے دو چار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خواتین کی رہائی پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثنا بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر کہا کہ بی این پی بلوچستان کی عزت و غیرت کی نگہبان ہے۔ آواران کی ہماری عزت مند مائیں رہا ہوکر گھر پہنچ گئی۔

خیال رہے بلوچستان میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جہاں بلوچ خواتین کو حراست میں لیکر مقدمات درج کیے گئے ہیں تاہم اس سے قبل مختلف اوقات میں مشکے، بولان، پنجگور اور دیگر علاقوں سے بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے خبریں رپورٹ ہوتی رہی ہے۔

رواں سال حانی گل کا کیس بھی سامنے آیا جنہوں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ آکر انکشاف کیا کہ انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ان کے منگیتر کے ہمراہ جبری طور پر لاپتہ کرکے تین مہینے تک اپنے پاس رکھا۔

حانی گل کے مطابق انہیں دوران حراست مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کی منگیتر تاحال لاپتہ ہے۔