انیتا جلیل کا مقدمہ – ذوالفقار علی زلفی

684

انیتا جلیل کا مقدمہ

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

گوادر سے تعلق رکھنے والی معروف ویڈیو بلاگر اور فلم آرٹسٹ انیتا جلیل کے ایک ویڈیو پیغام نے بلوچ سماج میں ہلچل مچادی ہے ـ خاتون کے مطابق انہیں ان کے ساتھی مرد اداکار/اداکاروں کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے ـ مسلسل ہراسمنٹ کی وجہ سے انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کی ناکام کوشش کی ہے ـ خاتون نے اپنے پیغام میں بلوچ خواتین کو فلموں و ڈراموں کے شعبوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے کہا کہ اس شعبے میں آپ کی عزت محفوظ نہیں رہے گی ـ

اس ویڈیو نے سوشل میڈیا کو تہہ و بالا کردیا ـ بعض افراد نے موقف اپنایا کہ انیتا جلیل ڈرامہ کررہی ہے تاکہ سستی شہرت حاصل کرسکے ـ ایک گروہ نے الزام لگایا وہ زیرِ تعمیر بلوچ سینما کے خلاف سازش کررہی ہے ـ ایک واضح اکثریت نے فوری طور پر خاتون کی حمایت شروع کردی جبکہ کچھ لوگ انیتا کی ویڈیو کی آڑ لے کر اپنے پرانے بیانیے کے ساتھ سامنے آئے کہ جی خواتین کی بے پردگی بلوچ ثقافت کے منافی ہے ـ مجھ جیسے لوگ خاموش رہ کر “تماشائے اہلِ کرم دیکھتے رہے” ـ

بانُک انیتا جلیل کے ویڈیو پیغام کو ہم دو حصوں میں تقسیم کریں گے ـ ایک حصہ وہ ہے جس میں انہوں نے ہراسگی کا الزام لگایا جبکہ دوسرے حصے میں انہوں نے خواتین کو میڈیا کے شعبے سے دور رہنے کی تلقین کی ـ

پہلا حصہ ہماری سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے جبکہ دوسرے حصے کو ہم کُلّی طور پر مسترد کرتے ہیں ـ ہراسمنٹ گھر پر بھی ہوسکتی ہے تو کیا عورتیں گھروں میں رہنا چھوڑ دیں، یقیناً نہیں ـ اگر کسی کو کہیں سے نکلنا یا دور رہنا ہے تو وہ صرف اور صرف مردانہ شاؤنزم ہے ـ

عورت چونکہ مردانہ بالادستی پر مبنی معاشرے کا کمزور رکن ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی بھی روشن حقیقت ہے اس لیے ہمیں مادی حقائق کو مدِنظر رکھ کر معاملے کو دیکھنا چاہیے اور اس کے حل کی طرف بڑھنا چاہیے ـ

مادیت کے اصول کے تحت ہم فرض کرلیتے ہیں انیتا جلیل سچ بول رہی ہیں، ان کے ساتھ واقعی میں بدسلوکی ہوئی ہے ـ کمزور پوزیشن کی وجہ سے ہم فی الحال انیتا کو کٹہرے میں بھی کھڑا نہیں کریں گے ـ ان پر دباؤ ڈالنا کہ وہ عوامی سطح پر ملزمان کا نام لیں ورنہ ہم تسلیم نہیں کریں گے ہرگز ہرگز درست رویہ نہیں ہے کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں بعض مخصوص حالات میں یہ نقصاندہ بھی ثابت ہوسکتا ہے ـ لڑکی کو مشکوک مان کر اس پر عوامی سطح پر جرح کرنا بھی غلط ہوگا اس سے وہ مزید ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہوسکتی ہیں ـ

پھر کیا کیا جائے؟

میری ناقص رائے میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ایسے معاملات کو سمجھنے والے معاملہ فہم افراد شامل ہوں ـ مزکورہ کمیٹی میں خواتین کی بھی اچھی نمائندگی ہونی چاہیے ـ وہ کمیٹی انیتا جلیل سے بات کرے اور ان سے واقعے یا واقعات کی پوری معلومات لے ـ اس کے بعد نشان زد ملزمان کو کمیٹی کے سامنے دفاع کا موقع دے ـ جرم ثابت ہونے کے بعد کمیٹی کی جانب سے ان ناموں کو پبلک کیا جائے اور ان کا بلوچی فلموں و ڈراموں میں داخلہ مکمل طور پر بند کردیا جائے چاہے وہ کتنے ہی بڑے “سپراسٹار” ہی کیوں نہ ہوں ـ بلوچ مستقبل سے کھیلنے اور بلوچ خواتین کا راستہ روکنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ملنی چاہیے ـ اگر بالفرض صورتحال الٹ نکلے تو انیتا کو سزا دی جائے ـ

ایسی کمیٹی کا بننا کوئی مشکل کام نہیں ہے ـ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہوگا ـ اگر انیتا جلیل کا مقدمہ خوش اسلوبی سے حل ہوا تو ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں خواتین کو ہمیشہ تحفظ کا احساس رہے گا ـ

آخر ہم کب تک زمین سے اگتے یا آسمان سے گرتے رہیں گے؟ کبھی نا کبھی ہمیں عورت کو اس کا جائز اور باعزت مقام تو دینا ہی ہوگا ـ تو ابھی سے کیوں نہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔