افغانستان سے فوجی انخلاء پہ امریکہ و افغان حکومت متفق

227

افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل مارک ملی کے افغانستان کے حالیہ دورے میں واشنگٹن اور کابل نے 4000 امریکی فوجیوں کے انخلا پر اتفاق کیا تھا۔

افغان نائب صدارتی ترجمان دوا خان مینہ پال نے  بتایا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں میں کمی کا افغان مفاہمتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری جانب ایک اور عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک عالمی نشریاتی ادارے  کو بتایا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا آئندہ تین ماہ میں شروع ہو جائے گا تاہم اس وقت بھی زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔

اس حوالے سے افغان فوج کے سابق جنرل عتیق اللہ امرخیل کا کہنا تھا کہ امریکی فوج میں کمی سے جنگ کے میدان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ امریکی فوج طالبان کے خلاف دو بدو لڑائی کا حصہ نہیں ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ‘این بی سی نیوز’ نے بھی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے 4000 ہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی صدر اپنے مشیروں کو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ نومبر 2020 میں صدراتی انتخابات سے قبل افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے خواہاں ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کے مختلف آپشنز زیرِ غور ہیں۔ ان میں سے ایک انسدادِ دہشت گردی کا مشن محدود طور پر جاری رکھنا بھی ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت تقریباً 13 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جن میں سے پانچ ہزار انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بقیہ فورس افغان فورسز کی تربیت اور مشاورت کے فرائض انجام دے رہی ہے۔

بریفنگ کے دوران جنرل مارک ملی نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی کم سے کم موجودگی بھی ایک ممکنہ قدم ہو سکتا ہے۔

جنرل مارک ملی نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں کل کتنے فوجی تعینات رکھنا چاہتا ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد افغانستان کی وزارتِ دفاع کے ترجمان روح اللہ احمد زئی نے کہا افغانستان میں غیر ملکی فوج میں کمی یا ایسا کوئی بھی اقدام افغان اور امریکی حکومت مشترکہ طور پر کریں گے۔ افغان سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

خیال رہے کہ یہ بیانات ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان افغان امن مذاکرات میں وقفہ آ چکا ہے۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں قائم امریکی ہوائی اڈے پر حملے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں چند روز کے وقفے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مذاکرات کئی ماہ تک معطل رہنے کے بعد دسمبر میں دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔