آواران واقعہ! باتوں سے کچھ نہیں، عمل کرنا ہوگا؟ – کوہ روش بلوچ

331

آواران واقعہ! باتوں سے کچھ نہیں، عمل کرنا ہوگا؟

تحریر: کوہ روش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آواران سے خواتین کی گرفتاری یقیناً ایک دلخراش واقعہ ہے، مگر اس بات کا ادراک مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا سیاسی کارکن رکھ سکتا ہے کہ دشمن اس طرح کریگا، ہماری ماؤں بہنوں کو اٹھائے گا۔ جس طرح پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں کیا تھا ٹھیک اس طرح بلوچستان میں کریگا بلکہ کریگا نہیں، کرتا آرہا ہے، سیاسی کارکن اور لیڈر شپ اس چیز کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔

اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ خواتین پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں میں بند ہیں، کوئی ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ مگر جس دن آواران سے خواتین اٹھائے گئے ہیں، اسی دن سے کئی سوالات میرے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ جس طرح کا ردعمل میڈیا میں دیا جارہا ہے یقیناً مجھ سمیت کئی سیاسی کارکنوں کے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر بلوچ آزادی پسندوں نے ردعمل دکھایا ہے وہ کیسا ردعمل ہوگا؟ کیا بلوچ آزادی پسند ردعمل میں پنجاپ یا کراچی جیسے شہروں میں ردعمل کے طور پر پنجابی یا اسٹبلشمنٹ کے عورتوں کو نشانہ بنائینگے؟ کیا یہ عمل ٹھیک ہوگا؟ کیا اس طرح کے عمل سے بلوچ تحریک کو فائدہ پہنچے گا؟ کیا بلوچ آزادی کی جنگ اب بدلے کی جنگ میں تبدیل ہوگا؟ اگر پاکستان ہماری ماؤں اور بہنوں کو ہاتھ لگا کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے؟ کیا ہوگا وہ ردعمل اور کیسا ہوگا؟ ہوگا یا نہیں ہوگا؟ یا ہم صرف سوشل میڈیا تک محدود ہونگے یا کچھ عمل بھی ہوگا؟ اگر ہوگا وہ عمل کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ سامنے بس سوالات کی بھرمار لگی ہوئی ہے اور جوابات کچھ بھی نہیں۔

ہم کیوں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم اپنی ماؤں اور بہنوں کی حفاظت کے لئے آخری حد تک جاسکتے ہیں؟ ہم کیوں یہ نہیں کہتے ہیں اب وقت آچکا ہے، عورتوں کو مرودں کے ہمراہ مورچوں میں بیٹھ کر اپنی اور زمین کی حفاظت خود کرنی ہوگی؟ ہم کیوں یہ احساس دلانا چاہتے ہیں مرد خواتین سے افضل ہے اور مرد سب کچھ کرسکتے ہیں اور عورتیں کچھ نہیں۔ اگر پاکستانی فوج بلوچ ماؤں بہنوں کو اٹھا کر اپنے ٹارچرسیلوں میں بند کرکے وہاں ان کے ساتھ کیا کرتا ہے، وہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے پھر وہی خواتین کے لئے ہم ایک جامع حکمت عملی کیوں نہیں بناسکتے ہیں کہ وہ بھی اپنی اور زمین کی دفاع خود کریں۔ کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ بلوچ روایت کے خلاف ہے؟ اگر ایسا کوئی سوچتا ہے تو جناب یہ زمین جتنی مردوں کی ہے اتنی عورتوں کی ہے۔ نہ ہی مرد خواتین سے افضل ہے نہ ہی عورت، سب برابر ہیں۔ اگر مرد لڑ سکتے ہیں تو عورت بھی لڑ سکتے ہیں اب وقت آچکاہے کہ مردوں کے ہمراہ عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر میدان جنگ میں اپنی فرض پوری کریں۔ میں ایک بات یہاں واضح کرتا چلوں کہ اگر کوئی یہ سوچتاہے کہ آج خواتین بلوچ تحریک میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین اس وقت اگر تحریک سے منسلک ہیں تو صرف بیوی، بہن یا کسی اور رشتے کی وجہ سے منسلک ہیں اور حقیقت میں وہ صرف وہی رشتے کو نبھا رہے ہیں، ہم اپنے دفاع کے لئے اور خودکومطمئن کرنے کے لئے ضرور کچھ دلائل دے سکتے ہیں مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔

ہاں ہمیں کچھ خواتین سرفیس کے میدان میں نظر آئیں گے کیا وہ آج کچھ کر رہے ہیں؟ ہم تو خود کہتے ہیں کہ پاکستان جیسی ریاست صرف بندوق کی زبان میں سمجھ سکتا ہے تو پھرکیوں خواتین کے لئے کام کرنے کا کیٹاگری کچھ اورہے اور مردوں کے لئے کچھ اور ہیں؟

ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینا چاہیے نہ ہی آواران واقعہ پہلا تھا نہ ہی آخری ہے اب یہ مکمل پاکستانی فوج کا اپنایا ہوا پالیسی ہے جس طرح مارو پھینک دو کے پالیسی کی شروعات مرگ آپ سے ہوا ٹھیک اسی طرح یہ مکمل پالیسی کے تحت اب جاری رہیگا، جنتی بھی آزادی پسند لوگ ہیں ان کے خاندان والوں کو ایک ایک کر کے اٹھائے گا اور اس کے اثرات بلوچ تحریک آزادی پہ مارو پھینک دو والی پالیسی سے برا پڑنے والے ہیں۔

وقتی صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دشمن کی شکست کا نتیجہ ہے۔ مگر میں حیران ہوں ہم اتنی جلدی فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ کوئی اس بات کو سوچ سکتا ہے کہ اگر کسی کے گھر سے کوئی گرفتار ہو اس پہ کیا گزرتی ہے؟ اس کے خیالات کہاں سے کہاں گم ہو جاتے ہیں؟ یہ سب چیزیں ہمیں سوچنا چاہیے؟ کیا آج ہم اس بات کے حوالے سے سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرلینا چاہیے؟ کیا یہ بات یہاں آکر ختم ہوگاکہ دشمن سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ایسا قدم اٹھاگے جی ہاں دشمن نے ایسی قدم اٹھائی ہے اب ہم کیسی قدم اٹھائینگے اس پہ تمام پارٹی اور آرگنائزیشنوں کو سوچنا چاہیے۔ ٹویٹر کیمپین، اسٹیٹ منٹ اور یورپ میں احتجاجی مظاہروں سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا نہ ہی ٹویٹر کیمپین، اسٹیٹ منٹ اور احتجاجی مظاہروں سے کوئی مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا،بلکہ عمل سے سب کچھ ہوگا۔ اگر اسٹیٹ منٹ اور مظاہروں سے کچھ ہوتا تو تاریخ اتنی سرخ نہیں ہوتی۔

میرے نزدیک دو راستے ہیں ایک توعورتوں کو خود پارٹی اور لیڈر شپ کے سامنے یہ بات رکھنی چاہیے کہ ہمیں بھی دشمن کے ساتھ لڑنا ہے اور اپنی اور زمین کی حفاظت کرنی ہے یا دوسرا انہیں اپنی باری کی انتظار کرلینی چاہیے۔ اور لیڈر شپ کو بھی اس پہ سوچنا ہوگا اور مل بیٹھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانا ہوگا۔ ورنا پچھتاوے کے سوا ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔