آج اور کل – زیرک بلوچ

560

آج اور کل

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی قوم کے لئے اسکے اثاثے، اسکی زمین اسکا شناخت ہے۔آج بلوچ جس جنگی حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے ایک بلوچ نوجوان کو طاقت کا نشہ دے کر اسے new slavery میں دھکیلنے کی کوشش جاری ہے تاکہ اسکی قومی شعور کو انفرادی آزادی و طاقت کے آگے جھکا دیا جائے زندگی کے مراعات کو نئے اصولوں کے تحت Power of slave کو رائج کیا جائے۔جہاں ایک جانب قتل و غارت گری ہو اور دوسری جانب مراعات بھری انفرادی زندگی کا نشہ۔

یہ تمام حالات ایک عام بلوچ کے لیے جو خود کو urban کہتے ہیں ان کے لئے ایک نئے زندگی کی امید ہے۔جہاں وہ ایک انفرادی و بے معنی زندگی گزار سکتا ہے۔تو دوسری جانب نوجوانوں کی سیاسی طاقت کو تقسیم در تقسیم کرکے ideology کے بجائے confusion کے ذریعے ان کے منزل کو مزید دھول میں جھونکنے کے برابر ہیں۔کسی بھی سامراج کے مفاد و ساخت کے لئے انتہائی نقصاندہ بلکہ یوں کہوں کہ جب مظلوم اپنی حق کی بات کرنے لگ جائیں تو ظالم کی نیندیں اس لئے حرام ہونے لگتی ہیں کہ کہیں اس سے اسکا بستر نہ چھن جائے جو اس نے مظلوم کے خوف سے اپنے لئے آرام کا سامان بنایا ہوا ہے۔

آج کے حالات کو باریکی سے مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا دشمن ایک مکار،عیار اور بد تہذیب ہے اسے بس حکم عدولی کرنا آتا ہے۔آج ہمارا دشمن قوم کے اس طاقت کو کمزور کرنے کے درپے ہے جو آنے والے مستقبل کا معمار ثابت ہوگا۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ نہیں بلکہ بلوچ سیاست پر قدعن لگانا نوجوانوں کی شعوری طاقت کو منتشر کرنا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔سامراجی طاقتوں کی بس یہی کوشش ہے کہ جو طاقت بن کر بلوچ آج پوری دنیا کے سامنے ابھر چکا ہے آج چین و پاکستان بیک وقت اشاعت جنگی عزائم کو کچلنے کے لئے دن بہ دن تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے نئے طریقوں سے اپنے power کو utilize کررہی ہے۔تو دوسری جانب بندوق کو ایندھن والے قلم کے power کو minimize بھی کر رہی ہے۔

آج نوجوانوں کو Baloch nationalism کے نام پر دہشتگرد، انتہا پسند اور نجانے کس نام سے شہید کیا جاتا ہے۔تو دوسری جانب surface پہ موجود عام کارکنان کے آگے نئے سیاسی اصطلاحات جو صرف confusion پھیلانے کے لئے ہی پروان چڑھائے جارہے ہیں آج اگر ہم نے اپنے حالات کا بغور جائزہ نہ لیا اور اگر ہم اپنے وقت کی حقیقت و ضرورت کے مطابق خود کو ذہنی نشوونما کرنے سے قاصر رہیں تو یہ confusion جو دراصل صرف ہمارے طاقت کو minimize کرنے کے لئے متعارف کئے جارہے ہیں ہمارے آنے والے نسلوں کے لئے ایک بڑا challenge بن سکتے ہیں۔

آج کی دنیا لوگوں کو ایک سا دیکھنے اس لئے چاہتے ہیں کہ لوگوں کو لوٹ سکیں آج ہماری سیاسی طاقت کو جو Directly بس اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہونا چاہیے اس غیر سیاسی Barriers کے ذریعے کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ہم اس بات کو ذرا غور سے دیکھیں کہ آخر کیوں آئے دن ہم پہ نئے نئے قوانین مصلحت کی جارہی ہے جبکہ ایک بلوچ کے لئے بس بلوچ ہونا ہی کافی ہے تو پھر کیوں کبھی زبان کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر ہمارے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔جب بلوچ کا مسئلہ ایک سیاسی و قومی مسئلہ ہے تو اسے کیوں مغربی terms کے ذریعے الجھایا جا رہا ہے اس لئے تاکہ ہمارا قومی طاقت جو Pure nationalism کے بنیاد پر اسے منتشر کیا جاسکے منزل تو آزادی ہے اس راہ پہ چلنا ہے اور اپنی کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔

آج ہمیں مطالعہ کی ضرورت ہے اپنے essence کو جاننے کی ضرورت ہے اس کے لئے اپنے قومی طاقت کو یکجا اور درست سمت دینے کی ضرورت ہے۔یہ تمام حربے جو سامراج کی مرضی و منشا کے مطابق کئے جارہے ہیں انکو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بجائے اسکے کہ اس مکھڑی کی طرح خود اپنے ہی جالے میں دم نہ توڑ دے۔سیاسی پختگی اور شعوری نشوونما کتابوں سے دوستی کرنے اور عملی میدان میں اترنے سے ہی آتی ہے۔بابا خیر بخش مری کے بقول “جو عملی میدان میں کچھ کررہا ہے وہی قوم کا حقیقی وارث ہے”۔آج تعلیمی اداروں سے لیکر عام بلوچ کے لئے سامراج بس ایک ہی خواہش رکھتا ہے کہ بلوچ نام ہی نہ رہے۔

کیونکہ ایک بلوچ کا ہونا اپنے حق و وراثت کی بات کرنا اپنے شناخت کی بات کرنا اپنے زمین کی بات کرنا ہے آج بلوچ نہیں بلکہ بلوچ کا قومی مزاج اسکے لئے مظہر ہے اس نئے نئے جذبوں کے ذریعے آج قومی مزاج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آج یہ جو سیاسی ماحول بنایا گیا ہے اسکا بنیادی مقصد ہمارے قومی طاقت کو منتشر کرنا ہے۔آج خود کو scientific بنیاد پر سوچنے بلکہ unite کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ جو گندھ بازار میں پھیلا جارہا ہے اپنے لوگوں کو اس گندھ سے محفوظ کرسکیں۔

بحیثیت طالب علم ہمارا فرض و قومی فرض یہی ہے کہ ہم اپنے تعلیم کو قومی و شعوری بنیاد پر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ایک طرف جہاں ایک مرد کے لئے انفرادی زندگی و غربت کا مسئلہ رکھا جاتا ہے تو دوسری جانب Baloch nationalism کو کاؤنٹر کرنے کے لئے نئے نئے اصطلاحات لائے جاتے ہیں تاکہ یہ جو اجتماعی و قومی طاقت ہے اسے مزید confusion میں ڈالا جاسکے۔اپنے ہی لوگوں کو Discourses اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ ہم دشمن کے چہرے کو دھندلا دھندلا دیکھنے کی کوشش کریں اور آج ہم یہی کررہے ہیں آج بلوچ طالب علم اس حقیقت سے واقف ہو کہ بھی قومی سوال کو لکھنے، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا قومی غلام کی بابت بات نہیں کرتا بلکہ کبھی liberal تو کبھی Feminism میں خود کو confuse پاتا ہے۔ہمیں دھیانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آج اگر ہمارے لئے قومی تاریخ و تحریک میں ابھرنے والے نئے مسائل زیربحث نہیں ہوگی فلسفیانہ بنیاد پر موضوع نہیں ہونگے تو جو ایک ضد کا community development کی بنیاد ہے وہ کمزور سے کمزور تر ہوجائے گا۔ہمارا ماضی ہمارے لئے ایک سبق ہے اگر ماضی کو فراموش کرکے ہم آج Individual life کی مذہب میں گم ہوجائیں تو یہ جدوجہد جو شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے ہمارے لئے ایک لعنت و ملامت ہوسکتا ہے۔آج اگر اداروں میں ہم نے قوم و قومی سوال کو اپنا زیربحث موضوع نہیں بنایا تو اداروں سے نکل کر ہم بس اپنے آنے والے نسلوں کو confusions دے سکیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔