بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے میڈیا کو جاری اپنے اعلامیے میں کہا کہ اندرون بلوچستان، برطانیہ، نیدرلینڈ، جرمنی، جنوبی کوریا میں ریفرنسز اور آگاہی پروگراموں کا انعقاد کیاگیا،جن میں لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ 13نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے بلوچستان بھر اور دنیا کے مختلف ممالک میں ریفرنسز اور آگاہی پروگراموں کا انعقاد کیاگیا، ان میں شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کرکے ان کی مشن آزاد بلوچستان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تجدید عہد کیا گیا،ان پروگراموں پارٹی کارکنوں،طلبا اور بیرونی ممالک کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مرکزی پروگرام بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا،جس سے خطاب کرتے ہوئے دل مراد بلوچ نے راجی شہداء کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج تجدید عہد کا دن ہے۔ آج ہم ان شہدا کو یاد کررہے ہیں جنہوں نے قومی بقاء کے لئے اپنا انمول لہو نچھاور کردیا، شہداء نے غلامی کی زندگی پر جدوجہد اورشہادت کو ترجیح دی، انہوں نے جدوجہد کے مختلف محاذوں پر جام شہادت نوش کی اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے، ہم جانتے ہیں کہ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے، زندگی انمول ہے لیکن قومی زندگی سے انفرادی زندگی ہرگز ہرگز اہم تر نہیں،ہماری زندگیوں سے قومی آزادی، قومی بقاء، قومی تشخص عظیم تر ہے اورعظیم تر رہے گا، بلوچ قوم خوش قسمت ہے کہ بلوچ مائیں فخر کے ساتھ اپنے جگر گوشوں کو رخصت کرکے محاذ پر روانہ کرتے ہیں۔ ان کی شہادت پر آنسو بہانے کے بجائے خوشی کے گیت گاتے ہیں۔انہیں نعروں کے گونج میں سرزمین کے سپردکرتے ہیں۔ آج شہدا کو یا د کرنے کا دن ہے،لیکن ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ شہد ا ء کی مشن محض ان کی تعریف و توصیف سے ہر گز آگے نہیں بڑھتا۔ یہ دن ہمیں دلاتا ہے کہ شہید اپنا فرض پورا کرگئے،اپنا قول نبھاچکے ہیں۔ مگر ان کا مشن ادھورا ہے۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ یہ دن تجدید عہد کا دن ہے۔ یہ دن اپنی اپنی ذمہ داریوں کا جائزہ لینے، احساس و ادراک کا دن ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ شہداء نے ذاتی نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ قومی فرض کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ عظیم مقصد کے حصول تک قربانیوں کا سفر جاری رہے گا۔ بلوچستان خطے کا امیر ترین ملک ہے۔ لیکن آج ہم اس لئے جدوجہد نہیں کررہے کہ بلوچ سرزمین وسائل سے مالا مال ہے۔ بلکہ ہم جدوجہداس لئے کررہے ہیں کہ یہ سرزمین ہماری ماں ہے۔ ہم سب اس سرزمین سے جنمے ہیں۔ اسی سرزمین میں دفن ہوں گے۔ ہماری جدوجہد کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں بلوچ مرد اور خواتین شانہ بشانہ ہیں۔ کوئی صنفی امتیاز نہیں۔ کوئی دقیانوسی تعصب نہیں۔ آج کا بلوچ خوش نصیب ہے کہ وہ قومی آزادی کے عظیم کاروان کا حصہ ہے، ہمیں اس بات کا احساس کرلینا چاہئے کہ ماضی کے مقابلے میں آج بلوچ کے پاس بہترین موقع، بہترین صلاحیت اور بہترین پلیٹ فارم موجود ہے۔ اگر ہم نے اپنے فرائض نبھانے میں کوتاہی برتی تو تاریخ ہمیں قطعا معاف نہیں کرے گی۔
ترجمان نے کہا کہ برطانیہ کے شہر لندن میں فینس بری سکوائر کے مقام پر یوکے زون کی جانب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیاگیا، اس میں کثیر تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان، بلوچ خواتین، دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں سمیت میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔اس اجتماع سے بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ، بلوچستان نیشنل موومنٹ (زرمبش) کے رہنما عبداللہ بلوچ،ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر لکھو لوہانا، انسانی حقوق کی علمبردار نور مریم کنور، نیشن ودآوٹ اسٹییٹس کے رہنما گراہم ولیم سن، بی ایس او آزاد لندن زون کے کارکن احسان بلوچ، یوکے میں مقیم بلوچ سیاسی کارکن شیرباز جمالدینی اور بی این ایم یوکے زون کے نائب صدر حسن دوست بلوچ نے خطاب کیا۔
پروگرام میں بلوچ قومی شہیدوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور عہد کیا گیا کہ شہداء کے مشن کو عملی طور پر آگے بڑھانے کی خاطر ہمیں روزانہ کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو تیز کرنے کی کوشش کریں گے۔
اجتماع سے بی این ایم خارجہ امور کے ترجمان حمل حیدر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اُن شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اور اپنا آج ہمارے آنے والے کل پر قربان کردی ہیں۔ ہم ان تمام شہیدوں کو جھک کر سلام پیش کرتے ہیں اور ان ماؤں بہنوں اور بزرگوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ بیس سال سے جاری اس جدوجہد کو ختم کرنے میں پاکستانی ریاست بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ یہ جدوجہد آج بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ حمل حیدر نے مزید کہا کہ بلوچ دانشوروں، استادوں، اور دیگر علم دوست کرداروں کو شہید کرکے بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر نام نہاد نیشنلسٹوں کو طاقت میں لاکر جہاں ریاست اور ریاستی نمائندے یہ سمجھتے تھے کہ اب بلوچ سیاست اور بلوچ قومی تحریک کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن بلوچ سیاسی کلچر آج دنیا بھر میں ایک منظم انداز میں سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔ آج بی ایس او جیسی طلبہ تنظیم پر پابندی کے اثرات نام نہاد نیشنلسٹ اور پارلیمنٹرین کے آنکھوں کے سامنے عیاں ہیں۔ جہاں بلوچ خواتین کی تعلیمی درسگاہوں میں تذلیل کیا جارہا ہے وہیں نام نہاد پارلیمنٹرین انتہائی بے شرمی سے خود کو نمائندہ کہتے نہیں تھکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بی ایس او آزاد جیسی تنظیم آج بھی بلوچستان کے تعلیمی درسگاہوں میں آزادانہ طور پر سیاسی تربیت کر پاتی تو یقیناً ریاست اس طرح سے بلوچ خواتین کو بلیک میل نہ کرپاتا۔
اجلاس سے بلوچستان نیشنل موومنٹ (زرمبش) کے رہنما عبداللہ بلوچ نے شہدائے بلوچستان کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا، آج ہم جس مقصد سے یہاں موجود ہیں یقیناً اس مقصد کی حصول کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہدا کی قربانیوں کی بدولت دشمن ریاست اور اس کے کارندے بلوچ قومی شناخت اور تحریک کو مسخ کرنے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں۔
اجلاس سے ورلڈ سندھی کانگریس World Sindhi Congressکے رہنما ڈاکٹر لکھو لوہانا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھی اور بلوچ قوم کا درد ایک انکے مسائل اور ان مسائل کا حل بھی ایک ہے۔ میں آج یہاں کھڑے ہوکر ان شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہوئے اس بات کو محسوس کرسکتا ہوں کہ بلوچ قوم نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حصول آزادی کی خاطر اپنے سروں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ انہی قربانیوں کے ثمرات قومی آزادی کی شکل میں میسر ہوتی ہیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی علمبردار نور مریم کنور نے شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کیخلاف جاری نسل کشی ایک انسانی المیہ ہے۔ جس پر پاکستانی میڈیا سمیت تمام لوگ خاموش نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کو جس طرح سے نظرانداز کرکے وہاں فوجی جرائم کی خاموش حمایت کی جارہی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ نور مریم نے مزید کہا کہ شہدائے بلوچستان نے جس آزادی کا خواب دیکھا ہے، اسے شرمندہ تعبیر کرنا ہم تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نیشن ودآوٹ اسٹییٹسNation Without States کے رہنما گراہم ولیم سن Graham William Sonنے کہا کہ بلوچستان میں جاری ظلم و جبر سے دنیا کی بے خبری اور روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کا قتل عام ایک انسانی المیہ ہے۔ بلوچوں کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں جس طرح اسکاٹ لینڈ میں وہاں کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کی سرزمین کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک تاریخی نا انصافی کی گئی اور تب سے لیکر آج تک بلوچ قوم پر ظلم و جبر جاری رکھا گیا ہے۔ اس ظلم و جبر کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ بلوچ قوم دنیا میں مزید دوست پیدا کرکے بین الاقوامی طاقتوں پر دباؤ ڈالے۔
شہدائے بلوچستان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے بی ایس او آزاد لندن زون کے کارکن احسان بلوچ نے کہا کہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچ طالب علموں کا قتل عام کرکے جس طرح سے بلوچ تحریک کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ لیکن پاکستان تمام تر فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود ناکام نظر آتا ہے۔ احسان بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست پاکستان بلوچ نوجوانوں کو علم و زانشت سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ یہ بلوچ طالب علموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں تاکہ وہ اپنے آنے والے مستقبل اور بلوچ قومی کاز کو ایندھن فراہم کرسکیں۔
اجلاس سے یوکے میں مقیم بلوچ سیاسی کارکن شیرباز جمالدینی نے شہیدوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان شہدا کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان غازیوں اور انکی محنت و کاوشوں کو بھی سلام پیش کرنا چاہیے جو دشمن کے سامنے دیوار کی مانند کھڑے ہیں۔ شیرباز بلوچ نے مزید کہا کہ قومی تحریک کیلئے قربانیوں کی فہرست طویل ہے لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ابھی بہت بڑی منزل طے کرنا باقی ہے۔ ہمیں آزادی حاصل کرنے بعد بہت سے مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے بھی خود کو تیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ آزادی ہی صرف ہماری منزل نہیں بلکہ اصلی منزل آزادی کے بعد بلوچستان کو ایک بہتر اور مثالی ملک بنانا ہماری منزل ہونا چاہیے۔
اجلاس سے بی این ایم یوکے زون کے نائب صدر حسن دوست بلوچ، بی این ایم یوکے زون کے رکن رضوان بلوچ نے بھی خطاب کرتے ہوئے شہدا کو خراج تحسین پیش کی۔ بی ایس زاو آزاد کے رکن بلال شاد بلوچ نے بلوچ شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی بلوچی اشعار پیش کئے۔ جبکہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض حکیم بلوچ نے سرانجام دیے۔
بی این ایم شہید لالا منیر زون کے زیر اہتمام پروگرام سے مقررین نے کہا کہ ہم بلوچ سرزمین کی آزادی کے لیئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہدائے بلوچستان کی نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔ تعزیتی ریفرنس میں دوستوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ شہداء کی اپنے مادر سرزمین پر مرمٹنے کی روایت اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک ہماری سرزمین غاصب کی چنگل سے آزاد نہیں ہوگا۔ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو بلوچ سرزمین کے فرزندوں نے شہید محراب خان کی سربراہی میں اپنے مادر سرزمین کا دفاع کیا اور 13 نومبر 1839 کو شہید میر محراب خان انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس دن سے بلوچ سرزمین کے حقیقی فرزند ہر قبضہ گیر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
مقررین نے اپنے خطاب میں کہا مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدائے بلوچستان اپنے آپ میں جرات و بہادری کا پیکر تھے۔ جب وطن نے انہیں پکارا تو سربکف ہوکر میدان میں نکلے اور جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لئے تاریخ میں امر ہوگئے۔ بلوچ تاریخ تاابد اپنے فرزندوں کو یاد کرتا رہے گا۔ آج ہم ان کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنے عہد کا تجدید کرنے کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں۔ ہم شہداکے لہو کا سوگند لے کر عہد کرتے ہیں کہ جب تک شہدا کا مشن پورا نہیں ہوگا، جدوجہد میں کمی نہیں آنے دیں گے اور جب وقت آیا تو کسی بھی قسم کے قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
مقرین نے کہا شہید نواب نوروز خان، شہید نواب اکبر خان بگٹی جو 80 سال کے عمر میں محاذ کا رخ کیا اور دشمن کی نیندیں حرام کیں، نواب نوروز خان اور ساتھیوں کومکار دشمن نے قرآن پرحلف لے کر دھوکے سے شہید کردیا۔ نواب اکبر خان بگٹی اورساتھیوں کو کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے شہید کیا گیا۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ دشمن کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر اسے للکارتا تھا۔ چیئرمین کو ساتھیوں سمیت بھرے بازار سے اٹھاکر شدید اذیت رسانی سے شہید کیا۔ ڈاکٹر منان جان اور ساتھیوں کو گھر میں گھس کر شہید کردیا گیا۔ لیکن اس جدوجہد میں زرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ کیونکہ بلوچ قوم کا ہر فرزند شہدا ء کے مشن کا وارث ہے۔ بلوچ قوم کا ہر فرزند اس بات کا ادراک رکھتاہے کہ بلوچ تحریک آزادی کے شہداء نے ہمارے آنے والے اچھے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیاہے۔
بی این ایم آواران زون کی جانب سے ایک یادگاری ریفرنس کاا ہتمام کیاگیا جس سے آواران دمگ کے جنرل سیکریٹری ماسٹر ظفربلوچ،سینئر کارکن ماسٹر شہداد، بلوچ،بی ایس اوآزاد کے کارکن کمبر بلوچ نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم بلاشبہ اس بات پر فخر کرسکتاہے کہ اس نے ہر دورمیں اپنی قومی بقا، قومی ننگ و ناموس اور تشخص کے لئے طاقت ور دشمنوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے جدوجہد اور قربانی کا راستہ اپنایا اورآج تک اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہدا لہو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ شہدا کے مشن کو کسی بھی قیمت پر منزل تک پہنچائیں گ