دنیا میں ہر چیز یا عمل بلاوجہ نہیں ہوتا، ہر عمل کسی نہ کسی سے منسلک ہوتا ہے، ہر عمل کے پیچھے کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوتا ہے آج بھی ہماری مائیں، بہنیں بے بس سڑک پر بیٹھ کر درد بھری نگاہ سے وہاں سے گزرتے چہروں کو دیکھتے ہیں جن کے چہروں پر قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں مست اور ایک الگ دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز کے رہنماء ماما قدیر نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ میں وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرنسز کے احتجاج کو 3782 دن مکمل ہوگئے جہاں ایڈوکیٹ صغیر احمد اور انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ اپنے پیاروں کے انتظار میں بیٹھی مجبور مائیں اور بہنیں سوچنے لگ جاتی ہے کہ کاش زندگی ایک کتاب ہوتی ہے جس کے صفحات پلٹتے ہی پچھلے دنوں کی یادیں آجاتی ہے کہ ہمارے پیارے بھائی، بیٹے ہمارے ساتھ ہوتے تو ہم انہیں اپنے نظروں سے دور جانے نہیں دیتے، آج مائیں بہنیں آگ اور خون کے کئی دریا پار کرکے اپنے اس منزل تک نہیں پہنچ نہیں پائی ہے لیکن یہ بات واضح طور پر ثابت کی کہ ایک بہن یا ماں وہ سب کچھ برداشت کرسکتی ہے جو شاید کوئی مرد نہ کرسکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ عظیم مائیں، بہنیں جو آج بھی کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد کے پریس کلبوں کے سامنے دل برداشتہ اپنے پیاوں کی بازیابی کے لیے ہرقسم کی رکاوٹوں کے باوجود اپنی منزل کو پانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہیں۔ کیا ان ماؤں، بہنوں کی پکار سننے والا کوئی ہوگا، ہرگز نہیں جب انسان غلامی کی زنجیروں سے چٹکارہ حاصل نہیں کرتا وہ غلام اور محکوم قوم ہے ہماری غلامی اور بے بسی کا اندازہ بخوبی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج ہمارے سامنے بلوچ قوم کی بہادر اور بے بس بیٹیوں، ماؤں کو دیکھ کیا جاسکتا ہے۔