ہارنے والوں کے نام
تحریر: اعجاز منگی
دی بلوچستان پوسٹ
آپ نے سن زو کی کتاب ’’آرٹ آف وار‘‘ نہیں پڑھی۔ اگر پڑھی تو اس کو سمجھا نہیں اور اگر سمجھا تو اس پر عمل نہیں کیا ورنہ آپ کبھی نہیں ہارتے۔
اور اگر آپ وہ کتاب اب پڑھنا شروع کریں گے تو سن زو آپ کو بتائے گا کہ ’’آپ اب بھی نہیں ہارے۔ دشمن نے آپ کو پیچھے ضرور دکھیل دیا ہے مگر آپ ہارے ہرگز نہیں۔ کیوں کہ جیت ہار کا فیصلہ آپ کے دشمن کو نہیں ۔ آپ کو کرنا ہے۔ اگر آپ نے اپنی ہار کا فیصلہ کرلیا تو آپ ہار گئے۔ ورنہ جنگ ایک عمل مسلسل ہے۔ محبت کی مانند! یا نفرت کے مانند! ایک چلتا ہوا سلسلہ! زنجیر روز شب!
جنگ کو وحدت الوجود کی نظر سے دیکھنے والے قدیم چینی صدیوں قبل ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ کتاب اس وقت بھی عسکری اداروں میں ’’جنگ کی بائبل‘‘ قرار دی جاتی ہے۔ یہ کتاب صرف پینٹاگان میں ہی نہیں بلکہ بزنس کے بہت بڑے متکبوں میں بھی اس کتاب کو اہم مقام حاصل ہے۔ وہ کتاب جسے اگر چند الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے علاوہ اور کیا لکھا جائے کہ ’’اگر تمہیں جنگ جیتنی ہے تو جنگ بن جاؤ‘‘ ایک اندھی آگ۔ جو صرف ریفلیکسز پر بڑھتی اور مڑتی ہے۔ ایک ایسی بے رحمی جو درد کا احساس ختم ہونے کی وجہ سے فطری طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔ سن زو کہتا ہے کہ ’’جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ افکار نہیں اعمال کرتے ہیں‘‘ سن زور یہ بھی کہتا ہے کہ ’’سب سے بڑی جنگ وہ ہے جو بغیر لڑے جیتی جائے‘‘۔
جدید مفکرین فرماتے ہیں کہ ’’جنگ ایک سائنس ہے‘‘ جب کہ سن کہا کرتا تھا کہ ’’جنگ ایک آرٹ ہے‘‘ اس لیے اس نے اپنی کتاب کا نام ہی ’’آرٹ آف وار‘‘ رکھا۔ کیوں کہ سائنس ایجاد کرتی ہے۔ تخلیق نہیں کرتی۔ تخلیق صرف آرٹ کرسکتا ہے۔ وہ آرٹ جس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوا کرتی ہے کہ ’’افسوس! کہ ناممکن بھی ممکن ہے‘‘ جب جنگ آرٹ بن جاتی ہے۔ تب طالبان امریکہ کو شکست سے دوچار کرلیتے ہیں۔ کیوں کہ امریکیوں کے پاس سائنس اور طالبان کے پاس آرٹ ہے۔ امریکہ جنگی سائنسدان اور طالبان جنگی آرٹسٹ ہیں۔ وہ طالبان جنہوں نے ’’آرٹ آف وار‘‘ نہیں پڑھی۔ مگر وہ جنگ کے آرٹسٹ ضرور ہیں۔ اس لیے امریکہ انہیں پوری عالمی برادری کے مدد سے بھی مات نہ کرسکا۔ وہ جو کارپیٹ بمباری کے دوراں کابل سے پسپہ ہوئے۔ وہ اب افغانستان کے ڈی فیکٹو حکمران بنے ہوئے ہیں۔ جرمنی سے ان کے اچھے مراسم ہیں۔ اور وہ امریکہ سے جنگ بھی کر رہے ہیں اور بیک وقت مذاکرات میں بھی مصروف ہے۔ جنگ ان کے مذاکرات کو متاثر نہیں کرتی۔ بلکہ مدد فراہم کرتی ہے۔
عسکری علوم کے علامہ کہتے ہیں کہ ’’جنگ صرف میدانوں میں نہیں لڑی جاتی بلکہ دو سیاستدانوں کے درمیاں پڑی ہوئی ٹیبل بھی جنگ کا میدان ہوا کرتی ہے۔ وہ جنگ جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
’’جنگ ٹہری ہے
کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمن جاں ہے سبھی
سارے کہ سارے قاتل
لاؤ سلگاؤ کوئی جوش غضب کا انگار
وہ شوق کی آتش جرار ہے کہاں ہے لاؤ
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ
جس میں حرکت بھی ہو
طاقت بھی توانائی بھی!‘‘
جنگ حرکت ہے۔ طاقت ہے ۔ توانائی ہے۔ ماہرین جنگ کہا کرتے ہیں کہ ’’جنگ بے پردہ نہیں ہوتی ہے‘‘۔
سن زو کہتا ہے کہ ’’جنگ ایک دھوکہ ہے‘‘ سن زو کا اصرار ہی اسی بات پر ہے کہ ’’دشمن کو مسلسل دھوکہ دو‘‘ جب تم کمزور پڑ جاؤ تو طاقتور ہونے کا مظاہرہ کرو اور جب تمہارے پاس طاقت ہو تو کمزور دکھائی دینے کی کوشش کرو۔ دشمن کے بارے میں ہر بات جانو۔ مگر دشمن تمہارے بارے میں جو بھی جانے غلط جانے۔ جب کہ تمہیں دشمن کا اس سے زیادہ پتہ ہونا چاہئیے۔ سن زو یہی کہتا ہے ’’دشمن کی طاقت اور اپنی کمزوری پر نظر رکھو‘‘ اور سن زو یہ بھی کہتا ہے کہ ’’اگر تمہیں دشمن کو جیتنا ہے تو اپنے دشمن بن جاو ’’ہر دن جنگ اور ہر رات امن ہے‘‘ امن کی آغوش میں پرسکون نیند تب ہی ممکن ہے جب دن کے رن میں ہر جنگجو انسان کی کیفیت یہی ہونی چاہئیے جو ایاز نے منظوم انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’میں کہ رن بیر تھا
لو میں لڑتا رہا
بڑچھیوں کے تلے
جھپکیاں کی نیند کی
مجھ کو راس آگئیں
ریت تانبابنی
میرے تلوے جلے
برچھ کی چھاؤں میں
میں نہ بیٹھا کبھی!!
گھاؤ جب بھر گئے
میرے ہر انگ پر
کتنے کالے گلابوں کے
پودے ملے!!
بیریوں نے کبھی
یہ شکایت نہ کی
میں نے لڑتے ہوئے
وار اوچھے کیے!
مارنے سے ہچکاہٹ
نہ مرنے کا ڈر
ہاں مگر
رن کے جلتے ہوئے
ریت پر
دور کیلاش سے
چاند ہیمنت کا
میرے من کو ہمیشہ
بلاتا رہا۔۔۔!‘‘۔
ایک قدیم جاپانی شاعر نے بظاہر معصوم مگر انتہائی خطرناک خیال کو اس ہائکو میں سماتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’جس طرح پردیسی پرندہ
میں تواپنے گاؤں میں بھی
سوتا ہوں؛ مسافر کی طرح‘‘
مہابھارت میں کرشن نے ارجن سے یہی کہا تھا کہ ’’ایک جنگجو جاگتی ہوئی نیند سوتا ہے‘‘
مگر جن کی بیداری بھی سونے کے سکون سے ہم آغوش تھی ۔ وہ کس طرح جیت سکتے تھے۔ سیاست کو عشق کی بازی سمجھ کر لڑنے والے کے لیے کیا جیت کیا ہار؟ مگر جو محبت کو بھی جنگ سمجھتے ہیں وہ گوگول کے کردار ٹارس بلبا کی طرح دشمن کے خیمے سے محبوبہ اغوا کرلے آتے ہیں۔ جنگ ایک جنگجو کا عشق نہیں بلکہ عقیدہ ہوا کرتی ہے۔ عبادت ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ زیادہ عظیم ہوجایا کرتی ہے۔
ہارنے والوں سے ہمیں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ جو اسی کی دہائی میں ایک انگریز گلوکارہ نے اپنے اس گیت میں کہا ہے کہ:
’’اپنا بکھرا ہوا وجود
ٖٖپھر سے سمیٹو
اور آگے بڑھو!‘‘
فیض احمد فیض نے بھی یہی فرمایا ہے کہ:
’’جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے‘‘
وہ فیض جنہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
’’تم یہ کہتے ہو کہ
وہ جنگ ہو بھی چکی
جس میں رکھا نہیں ہے
کسی نے قدم
کوئی میداں میں اترا
نہ دشمن نہ ہم
نہ صف بن پائی
نہ کوئی علم
منتشر دوستوں کا پتہ دے سکا
اجنبی دشمنوں کا پتہ دے سکا‘‘
جنگ ایک لاحاصل منزل کا سفر ہے۔ اس میں جیت یا ہار نہیں ہوتی۔ اس میں مسلسل لڑنا ہوتا ہے۔ اور لڑتے ہوئے آگے بڑھنا اور کبھی سن زو کی بات مانتے ہوئے پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ مگر جو جنگجو حکمت عملی کے تحت لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتا ہے ۔ وہ ہارتا نہیں ہے۔ جنگ میں جیت صرف آگے بڑھنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی جیت کے لیے جنگجو کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔
جنگ ایک بے رحمی ضرور ہے مگر بے صبری نہیں۔ جنگ کے لیے بہت بڑے صبر کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص گوتم بدھ کے پاس آیا اور اس نے بدھ سے کہا کہ مجھے بھی اپنے جیسا بدھ بناؤ۔ اگر تم بدھ ہوسکتے ہو تو میں کیوں نہیں؟ بدھ نے جواب دیا کہ ’’ہاں کیوں نہیں! تم بھی میری طرح بدھ بن سکتے ہو اور میں اس میں تمہاری مدد بھی کروں گا مگر مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تم کیا جانتے ہو؟ یعنی میں تمہیں بدھ بنانے کی ابتدا کہاں سے کروں؟ تو اس شخص نے کہا کہ ’’مجھے صرف دو کام آتے ہیں۔ ایک تو میں بھوک برداشت کرلیتا ہوں اور دوسرا میں انتظار کرسکتا ہوں‘‘ بدھ نے اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔ اور کہا کہ ’’نصف بدھ تو تم پہلے سے ہی ہو!‘‘
ایک جنگجو کو انتظار کا آرٹ بھی آنا چاہئیے۔ کیوں کہ کبھی کبھی انتظار ایک عظیم جدوجہد ہوا کرتا ہے۔ ہار میں حوصلہ بڑی حاصلات ہوتا ہے!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔