کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

223

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3789 دن مکمل ہوگئے، بل نگور تربت سے سماجی کارکن فرید بلوچ، جلیل احمد و دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ نوشکی سے لاپتہ طالب علم رحمت اللہ بلوچ و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے شمار مرد خواتین ابھی تک لاپتہ اور غائب ہیں جن کے متعلق کسی کو علم تک نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں یا زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے، ان لاپتہ افراد میں کئی ایسے لوگ ہے جو اپنے خاندان اور گھر والوں کا اکلوتا سہارا ہے جن کی اسیری کے بعد ان کے گھروں میں چولہا جلتا ہوگا کہ نہیں، وہ کسمپرسی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے اس بات کا اندازہ شاید ظلمتوں کے ان ٹھیکیداروں کو نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے رشتے یہاں اتنے کمزور پڑجاتے ہیں کہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے علمبردار، ہیومن رائٹس کے پجاریوں کا یوں خاموش تماشائی بنے رہنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ درپردہ یہ قوتیں بلوچ نسل کشی میں برابر شریک ہیں اگر ایسا نہیں تو اس جمہوری دور میں بھی عسکری آپریشن اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ ریاست نے اپنے بچاؤ اور تحفظ کے لیے ہمیشہ اس دھرتی کا استعمال کیا وہ راسکوہ کے پہاڑوں پر ایٹمی دھماکے کی شکل میں ہوں یا بڑے پیمانے پر فوجی چھاؤنیوں کی شکل صورت میں لیکن ان کے عوض میں انہیں کیا ملا ظلم ستم، قہر و بربریت اور نت نئی سزائیں، ایک اسلامی ریاست میں گوانتاناموبے اور ابو غریب سے بدتر عقوبت خانے موجود ہیں جہاں پر نئی ایجادات، نئی اذیتیں گوانتاناموبے اور ابو غریب کی کال کوٹھڑیوں پر سبقت لے جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا جو قوم پچھلے ستر سالوں سے محکومی کی زندگی بسر کررہی ہے جسے آج تک ریاست نے من حیث القوم تسلیم کرنا تو درکنار انسانی حقوق دینا بھی گوارا نہیں کیا اور جب یہاں پر صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور کوئی ان نازیبا کرتوتوں کے خلاف آواز بلدن کرتا ہے تو انہیں کھارا پانی سمجھ کر تھوک دیا جاتا ہے۔