وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 3781 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے وفد نے مرکزی آرگنائزر ملک زبیر بلوچ کے سربراہی میں لاپتہ افراد کے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اس موقع پہ بی ایس او کے طارق بلوچ، بابل ملک ، شکیل بلوچ صمد صادق بلوچ خالد میر ودیگر بھی موجود تھے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی نے انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ، یورپی یونین اور کینیڈا کو متوجہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں متعدد اجلاسوں میں بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کی نسل کشی، بلوچستان میں شہری آبادیوں پر بمباری، بڑی تعداد میں شہریوں کی نقل مکانی پر تشویش کا اظہار کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنیوا میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والے مندوب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں مارو اور پھینکو کی پالیسی کو فی الفور بند کرے کیونکہ اس سے بلوچ معاشرہ منتشر ہورہا ہے اور اعتدال پسندی کے مواقع سکڑتے جارہے ہیں۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت سندھ، خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق کی پامالیاں جاری ہے جو باعث تشویش ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بلوچستان کا جبری الحاق کیا گیا تب سے عوام چین و سکون چھین لیا گیا ہے، بلوچستان کے حوالے سے بیرون ممالک درجنوں اجلاس منعقد ہوچکے ہیں تاہم نتیجہ ہمیشہ صفر رہا ہے جبکہ بلوچستان میں لاشوں کی برآمدگی، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت اور سب سے بڑھ کر سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔