کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

254

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3792 دن مکمل ہوگئے، ژوب سے وحید خان، زرک خان اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، نوشکی سے لاپتہ طالب علم رحمت اللہ بلوچ اور دیگر کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

احتجاجی کیمپ میں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے آواران، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان بھر سے خواتین و بچوں کی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی کیخلاف پریس کانفرنس کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی انسانی المیہ ہے – بی ایچ آر او

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی زیادتیاں اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان بھی گمشدگیوں اور قتل میں ریاست کے ملوث ہونے کی مذمت کررہے ہیں، بلوچستان میں آگ کئی سالوں سے لگی ہے اور اس کے بعد فوجی آپریشن، جبری گمشدگی، قتل، معزز افراد کو دھمکیاں اور اشتعال انگیز بیانات نے اس آگ کو ایندھن فراہم کیا جبکہ اس کے بجھنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے آواران سے بلوچ خواتین کے جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آواران سے چوبیس گھنٹوں کے دوران پاکستانی فوج چار بلوچ خواتین کو حراست میں لیکر لاپتہ کرچکی ہے جن میں بی بی سکینہ، سید بی بی، نازل اور حمیدہ شامل ہے جبکہ ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ کیے جانے والے تیرہ افراد بھی خواتین و بچے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی ہم کہہ چکے ہیں عالمی و ملکی انسانی حقوق کی اداروں کے خاموشی کے باعث بلوچستان میں انسانی بحران جنم لے رہا ہے، بلوچستان میں پہلے مرد محفوظ نہیں تھے اب خواتین و بچے بھی اسی ظلم و جبر کا شکار ہے اور اس عمل پر انسانی حقوق کی اداروں کی مجرمانہ خاموشی انہیں بھی ظلم و جبر میں برابر کا شریک بنارہی ہے لیکن ان ناانصافیوں کیخلاف پہلے کی طرح اپنی مدد آپ کے تحت اپنی بساط کے مطابق آواز اٹھاتے رہینگے۔

احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ نے ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے کہا کہ میرے بیٹے راشد حسین بلوچ کی متحدہ عرب امارات اور بعد ازاں پاکستان میں جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہورہے ہیں لیکن تاحال انہیں کسی قسم کی قانونی و انسانی حقوق نہیں دیئے گئے ہیں۔

راشد حسین کی والدہ کا کہنا ہے کہ دو دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے یوم آزادی کے موقعے پر اس حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔

خیال رہے بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے خلاف بی ایچ آر او کے وائس چیئرپرسن بی بی گل کا کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف کل بروز اتوار کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے جبکہ سوشل میڈیا پر کمپئین چلائی جائے گی۔