کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3769 دن مکمل ہوگئے۔ اوتھل سے لسبیلہ یونیورسٹی کے طلباء کے وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں فرنٹیئر کور اور جرائم پیشہ افراد کی ملی بھگت سے بلوچ فرزندوں، سیاسی کارکنان کے خلاف کاروائیاں کی گئیں، بلوچستان میں فوجی آپریشن کے دوسرے مرحلے میں ایف سی، ریگولر آرمی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ گروپوں اور ڈرگ مافیا کو غیر مسلح کرنے کی آڑھ میں قانون کے عمل درآمد کا ڈھونگ رچاکر بلوچ عوام کے خلاف فوجی آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قتل عام کا سلسلہ اُس بربریت کو بھی شاید مات دے جس طرح اس سے قبل ڈیتھ اسکواڈ اور دیگر جرائم پیشہ قبیل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے جبر و استبداد کی فضاء قائم کی گئی تھی، ان جرائم پیشہ افراد کو مسلح کرنے کا اقرار پاکستانی حکام کی بلوچستان میں ان کی جارحانہ پالیسیاں اعتراف نامہ ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد و شہداء کے بارے میں پاکستانی حکمرانوں اور فورسز کی جارحانہ پالیسیوں کا پول عالمی برادری کے سامنے کھل گیا ہے بلکہ بلوچ عوام کو بھی اس سے کافی شعور و آگاہی حاصل ہوچکی ہے، اس طرح کے اقدامات بلوچ سماج میں عملی پرامن جدوجہد کے موجب بنے گی، جارحین کی جبر و استبداد کا پردہ چاک کرنے اور حقائق کو عوام کے سامنے کے لیے عملی پرامن جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔