بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لیاری کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والے اسکینڈل کے خلاف اور وہاں زیر تعلیم بلوچ طلبہ و طالبات سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن میں طالب علموں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لینے کی اپیل کی گئی تھی۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک لوگوں نے بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور حکومت بلوچستان سے اپیل کی گئی کہ وہ اس واقعے میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دیں۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے چئیرمین عقیل بلوچ نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں جنسی حراسگی کے واقعات کا رونماء ہونا نہ صرف شرمناک فعل ہے بلکہ مقدس پیشے کو اپنی جنسی تسکین حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو انتہائی ذلت آمیز رویہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک سانحہ ہے جس کے زخم ایک وائس چانسلر کی برطرفی سے مندمل نہیں ہونگے بلکہ طالب علموں کو انصاف کی فراہمی اور ایسے واقعات میں ملوث تمام کرداروں کو سزا اور طلبہ کو حقوق فراہم کرنے تک جاری رہینگے۔ یہ واقعہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتظامیہ کی ملی بھگت سے انجام دیا گیا تاکہ ادارے کی ساکھ متاثر ہوسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات گذشتہ کئی عرصوں سے مختلف طریقوں سے ہراساں کئے جارہے ہیں جس کا اہم مقصد طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش ہے اور ہم اس سازش کے خلاف بلوچستان کے طالب علموں کے شانہ بشانہ جدوجہد کریں گے۔ ایک طرف ملک کے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے اور ایک طرف غیر ضروری بندشوں نے طلبہ کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔
عقیل بلوچ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اس کیس کو دبانے کے لئے مسلسل کوششیں کی جاری ہے جسکی بلوچستان سمیت کراچی کے طالب علم کسی صورت اجازت نہیں دینگے کیونکہ یہ مسئلہ صرف بلوچستان کے طالب علموں کے ساتھ روا نہیں رکھا جارہا بلکہ ملک بھر کے طالب علم اسی صورتحال سے دوچار ہے اور کسی نہ کسی قسم کی حراسگی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے واقعات کا تعلیمی اداروں میں رونماء ہونا اور پھر انہیں دبانے کے لئے سازشوں کا جال بچھانا خوف کے ماحول کو جنم دینے کے مترادف ہے اور اس خوف کے ماحول میں مستقبل کے معمار کے بجائے کچھ سہمے ہوئے لوگ ہی جنم لے سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا ہم ہراسگی کے واقعے سے متاثر بلوچ طالب علموں کے ساتھ ہے اور جب تک طالب علموں کے مسائل حل نہیں ہونگے ہم بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علموں سے یکجہتی کا اظہار کرتے رہیں گے اور آج کا احتجاجی مظاہرہ اس بات کا واضح اظہار ہے۔
مظاہرین نے صوبائی و وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ وہ تعلیمی اداروں میں رونماء ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لئے کردار ادا کریں تاکہ مستقبل میں ایسے ماہر اور قابل افراد سامنے آئیں جو ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں نہ کہ ایسے لوگ جو قوم کو تباہی کے دہانے تک پہنچائیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال اس بات کا متقاضی ہے کہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں کو ان کا جمہوری و سیاسی حقوق تقویض کیا جائے کیونکہ صرف سطحی طور پر مسائل کا حل مستقبل میں مزید پیچیدگیوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
عقیل بلوچ نے تمام طالب علموں اور تنظیموں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل حالات میں اپنے اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی سے طلبہ حقوق کی جدوجہد کو حتمی منزل تک پہنچانے کے لئے کردار ادا کریں۔