کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے، احتجاج جیئے سندھ تحریک، وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سجاگی فورم اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کی جارہی ہے۔
کراچی پریس کلب کے سامنے جیئے سندھ تحریک کے لاپتہ مرکزی رہنماء سید مسعود شاہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کیا جارہا ہے جو چوبیس گھنٹوں تک جاری رہے گی۔
پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں بلوچستان کے رہائشی لاپتہ راشد حسین کی والدہ نے بھی شرکت کرکے لاپتہ سندھی افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے سمیت اپنے بیٹے کے جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کیا۔
راشد حسین کے والدہ کا کہنا ہے کہ بحیثیت والدہ جس کی اپنی لخت جگر طویل عرصے سے لاپتہ ہو، اس درد اور کرب کی تکلیف دہ صورتحال کو سمجھ سکتی ہوں جس سے لاپتہ افراد کے لواحقین گزر رہے ہیں۔
راشد حسین کی والدہ کا مزید کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے زائد عرصے سے جبری طور پر لاپتہ اپنے جوان سال بیٹے راشد حسین کا منتظر ہوں جنہیں متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے دبئی سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیکر لاپتہ کیا اور بعدازاں غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ راشد حسین بلوچ انسانی حقوق کے کارکن ہے جبکہ وہ دبئی میں محنت مزدوری کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے جنہیں 26 دسمبر 2018 کو وہاں کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انکے رشتہ داروں کے سامنے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور چھ مہینے تک انہیں لاپتہ رکھا گیا جبکہ رواں سال 3 جولائی کو پاکستانی میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا جوکہ سراسر غلط بیانی پر مبنی پروپیگنڈہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ راشد حسین کو غیر قانونی طور پر 22 جون کو غیر قانونی طور پر ایک پرائیویٹ طیارے کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا جس کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہے جبکہ راشد حسین کو پاکستان منتقلی کے بعد بھی گذشتہ کئی مہینوں سے لاپتہ رکھا گیا، متحدہ عرب امارات کی طرح پاکستان میں بھی اس کو قانونی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں۔
سندھ میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ گذشہ کئی سالوں چل رہا ہے جس کے خلاف مختلف اوقات میں احتجاج ہوتے رہے ہیں۔
کراچی پریس کلب سامنے مظاہرے کی رہنمائی سید علی جیلانی، سسی لوہار، سارنگ جویو و دیگر کررہے ہیں جن کا مطالبہ ہے مسعود شاہ سمیت تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے۔
مظاہرین کا کہنا ہے مسعود شاہ، ایوب کاندھڑو، مرتضیٰ جونیجو، شاہد جونیجو، شوکت مرکھنڈ، شادی سومرو سمیت سندھ بھر سے درجنوں سیاسی و دیگر افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ مختلف اوقات میں رہا ہونیوالے افراد کی حالت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان افراد کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مظاہرین کا موقف ہے کہ ان جبری گمشدگیوں میں ریاستی فورسز اور خفیہ ادارے ملوث ہے لہذا ہم عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سندھ سمیت دیگر علاقوں میں جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیکر اپنا کردار ادا کریں۔