ڈیرہ غازی خان میں گذشتہ دنوں گذشہ دنوں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نوجوانوں کو مارنے کا واقعہ پیش آیا جس کے خلاف ڈیرہ غازی میں مقتول نوجوانوں کے لواحقین سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ سراپا احتجاج ہے۔
علاقائی ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ واقعہ دس تاریخ کو پیش آیا جہاں پولیس اہلکاروں نے دو بلوچ نوجوانوں عبداللہ کھوسہ اور حیدر کھوسہ کو گرفتار کیا اور ان کا موٹر سائیکل اپنے قبضے میں لیا۔
نوجوانوں کے لواحقین نے شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور موٹر سائیکل کاغذات پولیس کو دکھائے لیکن ان کی رہائی نہیں ہوسکی بعد ازاں مغرب کے وقت لواحقین کو پیغام ملا کہ آپ کے دو نوجوان پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔
واقعے کیخلاف بلوچ سیاسی جماعتوں کی جانب سے رد عمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے پنجاب پولیس کی مبینہ پولیس مقابلوں میں دو نوجوانوں کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ غازی خان سانحہ کوٹ مبارک کو 12 ربیع الاول کے مقدس دن پولیس تھانہ کوٹ مبارک نے راہگیر دو نوجوانوں عبداللہ ولد خمیسی جیانی کھوسہ، غلام حیدر ولد غلام صدیق جیانی کو گرفتار کر کے چند گھنٹے بعد مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں لادی گینگ کا ڈکیت قرار دے کر قتل کردیا۔
ترجمان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تھانہ کوٹ مبارک کی حدود میں پولیس اور لادی گینگ کے درمیان ہونے والے مقابلے میں ایک پولیس اہلکار سلیمان ہلاک ہوگیا جبکہ پولیس نے اپنی ناکامی چھپانے کے لئے دو بے گناہ اور مظلوم نوجوانوں کو راستے میں روک لیا اورحراست میں لے کر بہیمانہ تشدد کے بعد گھسیٹتے ہوئے لادی گینگ قرار دے کر قتل کر دیا۔
خیال مذکورہ نوجوانوں کے ورثا کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کا لادی گینگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں سارا علاقہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ مقتول عبداللہ کے والد کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا دبئی سے شادی کے لئے پاکستان آیا تھا۔
واقعے کے خلاف کوہ سلیمان کی معروف علمی وروحانی شخصیت مفتی عرفان الحق نقشبندی کی قیادت میں ورثاء اور بلوچ قوم نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم انصاف ملنے تک سراپا احتجاج رئیں گئے۔
نیشنل پارٹی نے پنجاب پولیس کی غنڈہ گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
دریں اثنا بی ایس او کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقی بلوچستان، ڈیرہ غازی میں گذشتہ دنوں پنجاب پولیس نے دو نہتے بلوچ نوجوانوں عبداللہ اور حیدر کو گرفتار کرکہ اپنے ساتھ لے گئے اور پھر انہیں بیدردی سے قتل کرکہ ان کی لاشیں پھینک دیں۔
بیان میں کہا گیا ہے پنجاب پولیس کا ایک مخصوص گروہ وہاں لوٹ مار اور قتل و غارت کے ایسے واردات مسلسل کر رہی ہے جنہیں نمائندگان کی سرپرستی حاصل ہے۔ عبدللہ اور حیدر کو بھی قتل کرنے کے بعد ان کے اشیا اور موٹر سائیکل کو پولیس اپنے ذاتی استعمال میں لے گئی اور اس بہیمانہ قتل کو دہشتگردوں کے ساتھ مقابلہ بتاکر پیش کررہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایس او اس مشکل وقت میں متاثرین کو بھرپور تعاون کی یقین دلاتی ہے اور التجا کرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اپنے ہم وطن فرزندوں کیلئے بھرپور آواز اٹھائیں تاکہ حکام بالا مجبور ہوکر ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث درندوں کو لگام دے اور مقتولین کے لواحقین کو انصاف ملے۔
علاوہ ازیں لاہور میں واقعے کے حوالے سے بلوچ طلبا کی جانب سے کل بروز ہفتہ لبرٹی چوک پر شام 4 بجے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔