ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے بیان کے تناظرمیں
تحریر: ہونک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی تحریک آزادی کس سطح پر ہے، اس کا مشاہدہ کرنا اس وقت انتہائی ضروری ہے، کیونکہ تحریک میں لازوال قربانیوں کے بدولت آج تحریک ایک اہم مقام حاصل کر چکا ہے۔ اس وقت بلوچ جدوجہد کا نیا دور شروع ہو چکا ہے، اس لیئے ہم یہ کہنے میں غلط نہیں ہو نگے کہ ۲۲ سال کے بعد ایک نئی نسل جد وجہد میں شامل ہو چکی ہے، یہ جدوجہد اب دوسری نسل تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ، کیونکہ ۱۹۹۷سے شر وع ہو نے والے مسلح مزاحمت پورے ۲۲ سال سے رواں دواں ہے۔ اس کےلئے بلوچوں نے بہت بڑی قیمت دی ہے، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہید اور لا پتہ ہوئے ہیں۔ اس پر باریک بینی سے دیکھ لیں تو گوادر سے ڈیرہ غازی خان تک ایسا گھر باقی نہیں جہاں سے کسی بلوچ نے اپنا مقدس خون پاکستانی قبضے کے خلاف نہیں بہایا ہے۔ ایک طرف پاکستانی بربریت اپنی جگہ موجود ہے جس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتا ہے، اس کو آشکار کرنے کےلیے بہت لازمی ہے بلوچ جد وجہد برائے آزادی کو تیز اور نئی سائنسی بنیادوں پر لے جانے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے اور دوسری طرح پاکستانی جبر کا سامنا جوان مردی سے کر رہے ہیں۔
جدوجہد میں منافع خور موجود رہتے ہیں اور یہ طبقہ ہر وقت موقعے کے انتظار میں رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سیاسی زبان میں موقع پر ست کہتے ہیں ، کیونکہ مو قع پر ست تحریکوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت رہے ہیں۔ اس کے لئے دلیل یہی بنتی ہے کہ یہ لوگ بنی بنائی کاموں کو برباد کر دیتے ہیں۔
اس پر قلم اٹھانے کا مقصد یہی ہے کہ حال ہی میں بلوچ قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے ایک بیان پر تبصرہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جس طرح انہوں نے ایک پرانے بحث کو ایک بار پھر شروع کیا ہے، جس طرح ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے پاکستانی بربریت اور موقع پر ستوں پر اپنے رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کے بیان کے کچھ حصے من و عن یہاں پیش کرتا ہوں جو انہوں نے بیان کی ہے اس پر کافی سوچنے اور بحث کرنے کی ضرورت ہے میں محسوس بھی کر رہا ہوں ’’بلوچ قوم نے اپنی جان و مال کی قربانی سے جدوجہد کو طاقتور بنایا۔ اپنے شبانہ روز محنت سے بلوچ کی دبی ہوئی ناتوان آواز کو توانا بناکر دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا ہے اور ایک پہچان پیدا کی ہے۔ لیکن افسوس امر یہ ہے کہ جدوجہد میں شامل چند عناصر نے بلوچ جدوجہد کے نام پر آسائشیں حاصل کرکے اسے ایک کاروبار بنایا۔ یہ بلوچ قوم کے ساتھ واضح دھوکہ ہے۔ بلوچ فرزندوں نے پاکستان کی وحشت ناک دہشت گردی کے علاوہ بھوک، پیاس اور موسموں کی سختی برداشت کرکے جدوجہد کو ایک واضح سمت دی اور دنیا پر ثابت کردی کہ حقیقی جہد کار کون ہیں؟ ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ نہ دشمن کی جبر و وحشت ہماری قوت میں کمی اور جد و جہد کا رخ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا اور نہ ہی تحریک میں شامل دوستوں کی منفی پالیسیوں اور جدوجہد کو کاروبار بنانے کی روش نے ہمیں مایوس کیا۔ کیونکہ قوم کی حمایت، نوجوانوں کی جذبہ قربانی اور منزل تک پہنچنے کے سچی لگن نے ہمیں وہ قوت فراہم کردیا جسے آج دنیا کی کوئی طاقت مدھم نہیں کر سکا ہے۔”
قاریں کو سمجھنے میں آسانی ہو، میر ے خیال میں اس کی تہہ تک جا نے کی ضرورت ہے، جو یہاں بحث ہو ئی ہے ، ان باتوں پر ہر بلوچ کو سوچنا چاہئے اور جنگی منافع خوروں کو پہچاننے کی ضر ورت ہے، جو تحریک میں ٹانگ اڑانے کی ہر جگہ کوشش میں ہیں ان کو ناکام کر نا ہو گا، کیونکہ جتنی قربانی بلوچوں نے دی اگر اس بار بلوچ ناکامی سے دو چار ہوئے تو شاہد اب کے بار دوبارہ ہم ا س مقام کو حاصل کر سکیں۔ اس لیے وقت کی نزاکت کو ہر سیاسی کارکن کو سمجھنا چاہئے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھنا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو صرف چند ذاتی آسائشوں کے خاطر انکی پشت پناہی کررہی ہے، بجائے اس کے اپنے علم و عمل کو صحیح بنیادوں پر تحریک آزادی کے لئے استمال کر تے اور تحریک آزادی کو انکے ہاتھوں بھینٹ چڑھنے سے بچالیتے۔ جس امید کے ساتھ اس تحریک میں ماں اپنے نوجوان بچوں کو قربان ہو نے کےلئے دعا نیک کرتی ہیں تو ان لوگوں بھی اپنی انا کو قتل کر نا چاہئے اور ان جنگی منافع خوروں کے ساتھ نہیں چلنا چاہئے جو تحر یک کو زوال کہ طر ف لجاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب جن لوگوں کی طر ف اشارہ کر رہے ہیں شاید کچھ سیاسی لوگ انکو جانتے ہونگے مگر عوام کو سمجھانے کےلئے ان الفاظ کو مزید واضح کرتے منا سب تھا ، اس بات سے ہر ایک واقف ہے تحریک کو تقسیم کر نے والےکون ہیں، اس پر کافی بحث ہوئی تنظیموں کو تقسیم در تقسیم کی ہے۔ قومی مفادات کےلیئے نہیں بلکہ اپنی نمودو نمائش کےلئے ایسی سوچ میں جمہوریت کا فقدان پایا جاتا ہے، جو بلوچ قومی تحریک کے روحِ رواں نواب خیر بخش مری بہت پہلے کہہ چکے تھے، ایسے خدا نخواستہ نہ ہو کہ قربانی عام بلوچ دیں اور مزے سردار اور نو اب کے فرزند لیں۔ ان کا دور خیالی تھا جو وقت سے پہلے قوم کے سامنے یہ باتیں بتائے، وہی بات آج ہمارے سامنے ہے، یو بی اے اور بی ایل اے کی تقسیم اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ تحریک کے انتہائی نقصان کے با عث بنے۔ جسکا ازالہ کافی وقتوں تک بہت مشکل ہے لیکن ایک بات ہر ایک اپنے ذہن میں رکھے اس کے لئے استاد اسلم بلوچ کا دور خیالی تھا، انہوں نے یو بی اے اور بی ایل اے کے درمیان صلح کی، اس سے استاد کی دور اندیشی ظاہر ہوتا ہے۔ تحریک کو مزید تباہ و بربادی سے بچایا گیا لیکن جب گراؤنڈ میں انکے مکروہ چہرے ظاہر ہوئے اسی گر وپ نے انٹرنیشنل سطح پر تحر یک میں انتشار پیدا کرنے کیلئے اپنے کوشش جاری رکھے۔
ایسے لوگ قومی درد نہیں رکھتے ہیں، یہ اصولوں کے نام پر پریشر پیدا کرنے کی ناکام کو شش کرتے ہیں، انقلابی جد وجہد میں ہر فر د کا کردار لیڈر کا ہو تاہے۔ تو ایک لیڈر کو دور کا خیال ہونا بہت لا زمی ہے، تحریک میں شامل ہر ایک فرد اپنا کردار ادا کرے، جس طرح میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ بلوچ قومی تحریک نئی نسل کو منتقل ہو چکی ہے جو ہر اس عمل کو بخوبی سمجھتے ہیں کیونکہ خود کے ساتھ اس تحریک کو ابھرتے ہو ئے دیکھتے ہیں، اس کو نقصان دینے والوں کو نئی نسل کبھی معاف نہیں کرتی ہے۔ جس کو انہیں سمجھنا چاہئے جو صر ف انتشار پیدا کرتے ہیں تحریک کے نام کاروبار کررہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے اپنے اخبا ری بیان کے آخر میں امید کے ساتھ قوم کو یہ پیغام دیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ’’اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کوختم کرنے کے لئے پاکستان نے بلوچ قوم کے لہو سے ہولی کھیلی ہے، عزتیں لوٹی گئی ہیں، زندان بلوچ نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں، لاکھوں خاندان دربدر ہیں، ہزاروں نوجوان جلاوطن ہوئے، آج بلوچ کو جو پہچان ملی اس کی ہم نے بھاری قیمت ادا کی۔ کوئی بھی بلوچ کی لہو سے دغا کرے گا، بلوچ کی بہتے لہو کی دریا کو اپنی ذاتی سرمایہ بناکر لہو فروشی کا مکروہ دھندا کرے گا تو بلوچ قوم، بلوچ تاریخ اور بلوچ تحریک اس کا احتساب ضرورکرے گا‘‘
اس وقت بلوچوں کی بدحالی کا ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ اگر جو کچھ باتیں زیر بحث ہو چکے ہیں واقعی ایسی حالات میں ایک چیز بہت لا زمی ہے کہ ہم اپنے تنظیوں کو فعال کرنے میں اپنی کوتاہی اور کمزوریوں کو دور کریں تو موقع پرستوں کو مواقع نہیں دیں تو جو بھی ہو بلوچوں کو مزید کو ئی بے وقوف نہیں بنا سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔