چیئرمین فتح بلوچ
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم شخصیات نے ہمیشہ خود کو اپنے عمل اور کردار سے تاریخ میں زندہ رکھا ہے، ان کی محنت و مخلصی اور دن رات کے کوششوں کے بدولت آج یہ شجرِ آزادی زندہ ہے۔ دشمن، سرزمین بلوچستان پر قابض ضرور ہے لیکن دھرتی ماں کے غیرت مند فرزندوں نے دشمن کو چین سے بیٹھنے نہیں چھوڑا کہ ہمارے وطن پر سکون کی نیند سو سکے۔ تاریخ گواہ ہے روز اول سے بلوچ قومی تحریک میں کئی لوگ شامل ہوئے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنہوں نے قومی تحریک کو ایک بوجھ سمجھ کر ذاتی مفادات کی خاطر کنارہ کشی اختیار کی ہے، شاید وہ فکری طور پر مضبوط نہیں تھے یا ان کی سوچ پختہ نہیں تھا۔ ان کے برعکس دوسری طرف جہد آجوئی میں ایسے بھی مخلص دوست ہمگام ہوئے ہیں جو روز اول سے لیکر اپنے آخری سانسوں تک مادر وطن کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے ثابت قدمی سے اپنے ہمفکر ساتھیوں کا ہاتھ تھامے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ میں امر ہوئے ہیں۔
ان میں سے شہید فتح قمبرانی عرف چیئرمین کا نام بھی سرفہرست ہے، جس کا ذکر کرتے ہوئے میں بھی فخر محسوس کررہا ہوں کہ آج میں بھی اس سفر کا مسافر ہوں، جس سفر میں چیرمین فتح جیسے دوست بھی شامل ہوئے ہیں۔ چیرمین فتح قمبرانی عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ آج بولان کو بھی چیئرمین کی قربانی پر ناز ہے، آج سانگان، چمالنگ جیسے محاذوں سے بھی یہی آواز گونجتی ہے کہ چیئرمین آپ نے خود کو ثابت کر دیا کہ کہ آج پیر غائب و بی بی نانی کے چٹان بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ چیرمین بلکل آپ اپنے آخری سانسوں تک ثابت قدم رہے۔
چیرمین فتح نہ صرف اپنے بہادری کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہے بلکہ چیئرمین ہمارے معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد تھے۔ چیئرمین فتح کا نام اکثر سنا تھا لیکن یہ میں اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ میں نے چیرمین کو زندگانی میں نہیں دیکھ سکا۔ ایک دفعہ بولان کے علاقائی کچھ دوست شہر آئے ہوئے تھے تو اتفاقاً ان سے ملاقات ہوا، حال حوال کے بعد میں نے سنگتوں یعنی تنظیم کے دوستوں کا موضوع چھیڑا کہ وہاں دوستوں کا پوزیشن کیسا ہے، علاقے کے لوگ ان سے خوش ہیں یا نہیں تو ان سنگتوں کے حال حوال میں چیرمین کا نام سامنے آیا اور ایک اور زمہ دار دوست کا جس کا تنظیموں رازداری کے وجہ سے نام ظاہر کرنا پسند نہیں کروں گا کیوںکہ چیرمین فتح اور دوسرے دوست کے پاس ان علاقوں کی ذمےداری تھی جہاں ان دوستوں کا قیام تھا۔ دوستوں کی باتوں سے اندازہ ہورہا تھا جن مشکل حالات میں چیرمین اور تنظیم کے دوستوں نے علاقے کو ایک خوبصورت انداز سے کنڑول کیا ہوا تھا وہ ہر شخص کی بس کی بات نہیں۔ چیرمین وہاں علاقے میں لوگوں کے فیصلے بھی کرتے تھے، علاقے کے لوگ تنظیم کے دوستوں کے فیصلوں سے مطمئن اور خوش بھی رہتے تھے نہ صرف چیرمین ان کاموں پر غور کرتے بلکہ علاقے میں اگر کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا تو چیرمین ان کے والدین سے تھوڑا سخت رویا اختیار کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول کیوں نہیں بھیجتے اور اگر وہ بچہ اسکول جانے سے انکار کرتا تو چیرمین بذات خود اسے موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسکول میں پیش کرتا۔
چیرمین فتح کی شہادت کا خبر سوشل میڈیا پر سامنے آیا تو فوراً میرا ذہن اسی چیرمین کی طرف گیا، جس کی تعریف ان علاقے کے دوستوں سے سنا تھا، خیر فون پر ان دوستوں سے چیرمین کا پوچھ نہیں سکتا تھا پھر سوچا دوست اگر شہر کی طرف آئے تو رابطہ کرنے کی کوشش کرونگا۔ کچھ دنوں بعد ان علاقائی دوستوں کا شہر آنا ہوا تو اتفاقاً بازار میں ملاقات ہوا تو فوراً میں نے چیرمین کا ذکر کیا کہ یہ وہی چیرمین ہے؟ جس کا آپ لوگ ذکر کرتے تھے دوست نے بلکل اداس چہرے کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے کہا ہاں یار چیرمین جیسے دوست سے ہم محروم ہوگئے۔
ان دوستوں میں سے ایک دوست نے چیئرمین کے ملاقات کا ایک قصہ چھیڑا، کیوںکہ دوستوں کے ساتھ جتنا وقت گذرا میں صرف چیرمین کے بہادری، اس کے منیجمنٹ کے قصے سن رہا تھا کہ وہ سنگتوں کے درمیان کیسے حالات کو مینیج کرتے تو چیرمین کا ایک تاریخی واقعہ بلکہ اسے قصہ کہوں گا وہ میں اس آرٹیکل کے ذریعے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
دوست کہتے ہیں، اس وقت جب استاد بولان میں موجود تھے تو علاقہ مکمل طور پر دوستوں کے کنڑول میں تھا، دوستوں کا ہر چیز پر باریکی سے نذر ہوتا تھا علاقے کے لوگوں پر ان کے تمام حالات بیماری، پریشانی، خوشی، غمی، میں دلچسپی لیتے تھے اس وقت حالات کنٹرول میں ہونے کے باوجود دوست گاڑی اور موٹرسائیکل کا استعمال بھی کرتے تھے۔
ایک دن صبح کا وقت تھا، میں قریبی اسکول کی طرف ایک کام سے گیا ہوا تھا، سردیوں کے دن تھے میں اور اسکول کا استاد دھوپ پر کھڑے بات کر رہے تھے، اچانک سامنے سے ایک ہنڈہ 125 موٹر سائیکل کی آواز آئی، موٹر سائیکل بالکل ہمارے قریب آکر رکا موٹر سائیکل پر سوار ایک بڑے بالوں والا مسلع نوجوان اور پیچھے بیٹھا علاقے کا واقف فلانی خان کا بیٹا تھا۔ اس مسلع نوجوان سے میرا پہلا ملاقات تھا، موٹر سائیکل سے اتر کر سلام کر کے ملا تو اس مسلع نوجوان کے حلیے سے معلوم ہو رہا تھا کہ یہ تنظیم کا نیا زمہ دار دوست ہے۔ جسے تنظیم نے اس علاقے کی ذمےداری دی تھی، ہمارے اور اپنے تعرف کے بعد چیئرمین نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استاد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اس بچے کو آپ نے اسکول سے کیوں نکالا ہے، تو استاد نے جواب میں کہاں اسکول نہ آنے کی وجہ سے اسے کافی بار سمجھانے کے باوجود، یہ بچہ اسکول سے غیر حاضری کرتا رہا ہے اور اسے دو بار پہلے بھی اسکول سے نکالا گیا تھا، ان کے والدین کے درخواست کے بعد اسے اسکول میں دوبارہ داخل کیا گیا تھا لیکن اس بار اس کے والدین کو بھی صاف انکار کیا ہے کہ اب اسے اسکول میں رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں تو چیرمین نے استاد سے کہا استاد میں آپ کو درخواست کرتا ہوں کہ اس بار اس بچے کو اسکول میں دوبارہ داخل کریں۔ یہ اگر پھر اسکول نہ آئے ہمارے علاقائی گشت اس علاقے میں ہوتے رہتے ہیں، مجھے پھر آپ بتائیں، استاد بھی چیرمین کو انکار نہیں کر سکتا تھا وہ چیرمین کے خوبصورت انداز گفتگو میں ہاں سے ہاں ملاتے گیا۔ چیئرمین نے بچے کو اسکول پہنچانے کے بعد ہم سے اجازت مانگ کر کہا مجھے آگے جانا ہے کام زیادہ ہیں، یہ الفاظ کہہ کر چیرمین نے اللہ حافظ کہہ کر رخصت ہوئے دوست کہتے ہیں کہ شہید چیرمین سے یہ میرا پہلا اور آخری ملاقات تھا لیکن یہ ملاقات میرے لیئے ایک متاثر کن ملاقات تھا۔
دوست کے باتوں سے اندازہ لگا کر ہمیں یہ بات سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایسے پڑھے لکھے نوجوان جو اپنے ذاتی زندگی سے نکل کر ایک اجتماعی سوچ کے مالک بن کر اپنے شہری زندگی اور شہری عیاشیوں کو چھوڑ کر اپنے پیاروں سے دور رضا کارانا طور پر نہ کوئی تنخواہ نہ کوئی اور ذاتی مفاد کی لالچ جو بولان ،شور پارود اور مکران جیسے محاذوں پر اپنے زندگیوں کو آخر کس کے لیے قربان کر رہے ہیں؟ جہاں گرمی کی شدت اور خون جمانے والے سردی کا پرواہ کیئے بغیر آج تک ثابت قدم ہیں، ان سب باتوں کے لیے ہمیں سنگتوں کے قربانیوں کو سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔