ڈگری کالج نوشکی میں ریاضی کے پروفیسر عبدالواحد چار سال کے زائد عرصے سے اپنے لاپتہ بیٹے کے رہائی کے انتظار میں ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات روزانہ کے معمول بن چکے ہیں جہاں آئے روز سالوں سے لاپتہ افراد کے بازیابی اور اسی کے ساتھ ہی گمشدگی کے واقعات پیش آتے ہیں جبکہ جبری طور پر لاپتہ افراد میں سے کئی افراد کے مسخ شدہ لاشیں بھی مختلف اوقات میں برآمد ہوچکے ہیں۔
پروفیسر عبدالواحد کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے رحمت اللہ کو 18 جنوری 2015 کو دن 3 بجکر 30 منٹ پر پاکستانی سیکورٹی اہلکار ڈگری کالج نوشکی کے قریب شہر کے داخلی شاہراہ پر واقع چیک پوسٹ سے اپنے ہمراہ لے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ رحمت اللہ کے گمشدگی کو چار سال دس مہینے گزرنے کے باوجود ان کے حوالے سے ہمیں تاحال کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح نوشکی سے بھی کئی افراد جبری طور پر لاپتہ کیے جاچکے ہیں، گذشتہ دنوں طالب علم سلال جمالدینی کو نوشکی میں واقع آزات جمالدینی لائبریری سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جنہیں گذشتہ رات رہا کردیا گیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بھی رحمت اللہ کے بازیابی کی اپیل کی گئی، وی بی ایم پی کا کہنا ہے کہ رحمت کو ملکی اداروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔
سیاسی و سماجی جماعتوں کا موقف ہے کہ ان جبری گمشدگیوں میں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے برائے راست ملوث ہیں جبکہ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر مذکورہ افراد پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے ان پر ملکی قوانین کے تحت مقدمات چلائی جائے۔