پروم اتنا پسمانده کیوں؟ – مقبول مہر

211

پروم اتنا پسمانده کیوں؟

تحریر: مقبول مہر

دی بلوچستان پوسٹ

تحصیل پروم جو پنجگور شہر سے کچھ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‍ فاصلہ پر ہے، آپ سب کو پتہ ہے پروم کس حال سے گذر رہا ہے۔ پروم میں نہ تعلیم ہے، نہ کوئی اور سہولیات، جو دوسرے علاقوں کے بنسبت بہت پسمانده ہے، ویسے پورا بلوچستان پسمانده ہے، مگر بلوچستان میں پروم سب سے زیاده پسمانده ہے۔ ابهی تک حکومت کی طرف سے کوئی بهی ترقی نظر نہیں آتی کیونکہ یہاں جو حکمران آتے ہیں وه صرف اپنے پیٹ تک محدود ہوتے ہیں۔ اِن کو دوسرے غریبوں اور مظلوموں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ صرف اپنے گهر کے ارد گرد کی فکر ہے۔ اگر دیکها جائے یہ سب ہماری غلطی ہے، جو ہم اس طرح کے نالائق حکمرانوں کو ووٹ دیتے ہیں اور اُن کو کامیاب کرتے ہیں اور اپنا لیڈر بنا کر اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں مگر اِس طرح کے نالائق حکمران اسمبلی میں حلف اٹهاتے وقت اپنے اندر بے ایمانی شروع کر دیتے ہیں اور ہمارے پنجگور اور پروم کا سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے جو اس طرح کے لاپرواه لیڈر منتخب کر کے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔

رحمت صالح کے دور سے لے کر ابهی میر اسد کی حکومت تک پروم میں کوئی ترقی نظر نہیں آتی، اگر دیکها جائے پروم ایران کے بارڈر سے ملا ہوا ہے، اُس طرف بجلی کے کھمبے نظر آتے ہیں اور لوگ خوش حال زندگی گذار رہے ہیں مگر پروم کے عوام آج تک وہی لالٹین پر زندگی گذار رہے ہیں اور روڈ کا تو نام و نشان بهی نہیں ہے۔ وہی ٹوٹا پھوٹا روڈ جو ایک گهنٹے کا سفر پانچ گهنٹے میں منزل کی طرف پہنچا دے، میرا تو اب اعتبار حکمرانوں پہ ختم ہو چکا ہے کیونکہ وه صرف مفاد پرست ہیں۔ اُن کو کسی پر رحم نہیں آتا۔ ہاں حکمرانوں نے پروم کو ییچهے دھکیلنے میں ذرا پرواه نہیں کی، ترقی کے بجائے بربادی کی طرف دھکیل دیا، پنجگور کے حلقے سے نکال کر آواران کے حلقے میں شامل کیا۔

یہ سب کچه رحمت صالح کے دور میں ہوا، یہ ہوتے ہیں ہمارے حکمران جو صرف اپنے فائدے کیلئے سوچ رہے ہیں اور عوام خاموش ہیں کیونکہ عوام اپنی سولر سسٹم کے انتظار میں خاموش ہیں، شاید سرکاری عطیات کا چهوٹا حصہ ملے گا۔ مگر بهائی ادھر کچھ ملنے والا نہیں ہے، اپنے علاقے کی ترقی کیلئے آواز اٹهاؤ، سب مل کر ایک آواز بنو، شاید آپ لوگوں کی آواز سنی جائے مجهے یاد ہے الیکشن سے پہلے اسد صاحب اور رحمت صالح دونوں نے پروم کا دوره کیا، ادھر اپنی ہمدردی پیش کی ہم پروم میں بجلی روڈ اور صحت کی سہولیات پوری کرینگے، ادھر بیچارے غریب عوام خوش ہوئے، پروم کیپیٹل لندن بنے والا ہے، مگر یہ سب کچھ خواب تها الیکشن کے بعد آج تک کسی نے پروم کا چکر بهی نہیں لگایا۔ چکر تو اپنی جگہ پروم کا نام اپنی منہ سے نکال دیا۔

اگر کوئی اِن کے پاس جائے، بولے میں پروم سے ہوں تو اُن کی طرف سے یہ جواب ملے گا بهائی کون سا پروم ہاں ہاں وه پروم جو میں نے وہاں ایک جلسہ کیا تها، چلو اچھی بات ہے پروم سے ہو آپ بیٹھ جاؤ مجهے ضروری میٹنگ میں جانا ہے میرے بهائیوں یہ ہوتے ہیں ہمارے لیڈر، جو ہم اُن کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتے پهرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔