پروفیسر ،دانشور،ادیب اور سانحہ یونیورسٹی – پروفیسر غلام دستگیرصابر

166

پروفیسر،دانشور،ادیب اور سانحہ یونیورسٹی

تحریرپروفیسرغلام دستگیرصابر

دی بلوچستان پوسٹ

وہ ایک پروفیسر،ادیب،اورترقی پسند نہایت انسان دوست دانشورتھا،لوگ اسے نہایت عزت ادب اور احترام سےبابا،واجہ اور ماما کہتے تھے،جبکہ اس کا اصل نام عبداللہ جان جمالدینی تھا۔

یہ 1990 کی دہائی کا زمانہ تھا،ان دنوں اسکی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور وہ فالج کا مریض تھا،انھی دنوں پہلی مرتبہ امریکہ نے افغانستان پرمیزائلوں سے حملہ کیا،جب پروفیسر عبداللہ جان کو یہ خبر ملی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی،وہ غم اورغصے سے کانپنے لگا،بس پھرکیاتھا اگلے ہی دن دنیا نے دیکھا کہ وہ بوڑھافالج زدہ پروفیسراور دانشور ایک وہیل چئیرپربیٹھا کوئٹہ شہرمیں افغانستان پرامریکی میزائل حملے کے خلاف ایک جلوس کی قیادت کررہاتھا،وہ امریکی سامراج کو للکار رہاتھا کہ تمہیں کس نے حق دیاکہ افغانستان کے لوگوں ماوں اور بچوں پرحملہ کرو،وہ ایک حقیقی پروفیسر، دانشوراور انسان دوست انسان تھا،اس نے افغان بچوں اورماوں کی فریاد کو کوئٹہ میں محسوس کیا،وہ جامعہ بلوچستان میں پروفیسر رہاتھا،اور آج المیہ یہ ہے کہ تقریباایک مہینے سے جامعہ بلوچستان میں انسانیت سوز درندگی کے خلاف طلباء طالبات سیاسی پارٹیاں طلبہ تنظیمیں سراپااحتجاج ہیں لیکن ہمارے سکہ بند بڑے بڑے شاعر ،ادیب کئی کتابوں کے مصنفین ، پروفیسرز اور ،ڈاکٹر، صاحبان کو سانپ سونگھ گیا،اور ایسے چپ ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہیں یہ وہ نہایت، قابل عقل کل،ڈاکٹر، پروفیسر، دانشور،ادیب، شاعر،مفکر اور فلاسفرہیں جو علمی اور ادبی لحاظ سے سقراط اور افلاطون کے بھی استاد ہیں۔یہ بڑےترقی پسند وطن دوست ،انسان دوست اور قوم دوست ہیں جو ہر اسٹیج پرنواب یوسف عزیزمگسی، گل خان، آزادجمالدینی، مجیدگوادری، پروفیسرنادر قمبرانی، میرعبدالعزیز کرد، میرعبدالرحمان کرد،عطاشاد، سیدہاشمی و دیگر کی روحانی اولاد اور جانشین ہونے کے دعویدار ہیں ،ماشاءاللہ اسٹیج،سیمینار،مشاعروں میں ایسے ایسے لیکچرز دیتے ہیں کہ بے اختیار سبحان اللہ چشم بدور منہ سے نکلتاہے۔گویا ادب ان کی لونڈی اور علم ان کاغلام ہے۔

اسی طبقے میں شامل ہمارے بڑے بڑے دیگر،،ادیب شاعر اور دانشور ہیں جونہ صرفبڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں بلکہ،ادبی اکیڈیمیز اور تنظیموں کے اعلی عہدیداران بھی ہیں، کئی کئی کتابوں کے مصنف ایک ہاتھ میں چائے کی کپ اوردوسرے ہاتھ میں تھری فائیو اور گولڈلیف سگریٹ لئے وہ عاشقانہ اور رومانوی اشعار سناتے ہیں کہ میاں مجنون بھی اپناسر دھنستا ہےاور کبھی کبھی ایسی انقلابی اور مزاحمتی شاعری کرتے ہیں کہ جناب فیض اورحبیب جالب شرماجاتے ہیں۔

ان ہی کی ادبی تنظیموں کو سالانہ کروڑوں(جی ہاں بلوچی،پشتو، اور براہوئی اکیڈیمی کا سالانہ فنڈ ایک ایک کروڑہے)مگر چند ایک کے سوا یہ بڑے بڑے سکہ بند شاعر اور ادیب بلوچستان یونیورسٹی کے انسانیت سوز واقعہ پر ایسے خاموش ہیں گویا گونگے ہیں،کہاجاتاہے کہ شاعر اور ادیب نہایت،حساس، ہوتے ہیں۔واقعی یہ نہایت حساس ہیں ، جب ان کی محبوبہ ان سے بے وفائی کرتی ہے تو یہ دھاڑیں مار مار کر شاعری میں روتے ہیں سینہ کوبی کرتے ہیں،اپناسینہ اور سر پیٹتے ہیں مگر جب ان کی مقدس اورپاک بہنوں کی چادر کو سر سے کینچھاجاتاہے تو یہ اندھے بن جاتے ہیں،ان کو اپنی محبوبہ کی سیاہ زلفیں سانپ کی طرح ڈستے ہیں مگریونیورسٹی کی چاردیواری میں بہنوں کی عزت کو ڈسنے والے سانپ اور بھونکنے والے کتے انھیں نظرنہیں آتے،یہ محبوبہ کی آنسووں پر کئی غزلیں لکھتے ہیں لیکن پیاری بہن کی آنسووں پرلکھتے وقت ان کا قلم ٹوٹ جاتاہے، وہ دنیابھرمیں ہونیوالے مظالم پرسوشل میڈیاپرچیختا ہے مگراپنی بہن اوربیٹی پرلکھتے ہوئے اس کے ہاتھ شل ہوتے ہیں،وہ اسٹیج پر گھنٹوں لیکچردیتاہے انسانی حقوق کا چیمپئین بنتامگراپنے ہی گھرمیں اپنی بیٹی اور بہن پرہونے والے انسانیت سوزواقعات پر گنگ ، معاف کیجئے۔جوحقیقی ادیب شاعراوردانشورہوتےہیں وہ واقعی نہایت عظیم اورانسان دوست ہوتے ہیں،وہ کمیٹڈ ہوتے ہیں،انھی کے دم سے سچ زندہ ہوتاہے، انسانیت کاسرفخرسے بلندہوتاہے،تاریخ ان پرنازکرتی ہے،آج بھی ان کی کمی نہیں ۔

مگر۔۔مگر دوسری جانب ان، سوفسطائیوں کی بھی کمی نہیں جو ادب اور علم کوصرف زاتی مفاد،کرسی،اورعہدے حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں،تاریخ دان لکھیں گے کہ ایک 70 سالہ بوڑھافالج زدہ ادیب اوربلوچستان یونیورسٹی کاپروفیسر عبداللہ جان جمالدینی وہیل چئیر پر بیٹھ کرکوئٹہ کی سڑکوں پرعالمی سامراج امریکہ کے مظالم پرچیخ رہاتھا، اور تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ بلوچستان یونیورسٹی میں بہنوں کی عزت اور حرمت لٹ رہی تھی مگر بڑے بڑے ادیب، پروفیسر،ڈاکٹر،شاعراور دانشور اندھے،گونگے، اور بہرے بن گئے تھے،تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی ، تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔