پاکستان کے خمینی اور بائیں بازو کی سیاست
تحریر۔ زبیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فروری 1979 کے انقلاب ایران نے صدیوں سے جاری شہنشاہیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر امریکی پشت پناہی سے چلنے والی سامراجی نظام کا بوریا بستر گول کرکے ایرانی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خمینی گو کہ بائیں بازو کا کوئی ترقی پسند مفکر نہیں تھا لیکن اس نے انقلاب کے سمت اور راہوں کو ایک مدبر اور ویژنری قائد کی طرح متعین کیا۔
پاکستان کے خمینی مولانا فضل الرحمن بھی دائیں بازو کے چوٹی کے راہنما ہیں۔ لیکن اس میں خمینی جیسا ہمت اور جرات کے ساتھ ساتھ وژن نہیں ہے۔ ان تمام کے باوجود ان دونوں میں کچھ مشترکہ خصوصیات بھی پائے جاتے ہیں۔ دونوں مذہبی رہنما ہونے کیساتھ ساتھ اپنے وقت کے ترقی پسندوں کو مذہبی بینر تلے متحد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکی پالیسوں کے حد درجہ مخالفت کرنے کے علاوہ دونوں میں سیاست کے سائنس میں مذہب کا منجھن شامل کرنے میں بھی اتفاق پایا جاتا ہے۔
پاکستان کے سیاست میں لفظ انقلاب بہت غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کا جماعت بھی بلا سوچے سمجھے بھی انقلاب کا اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ جس سے عوام کے وشواس کے ساتھ ساتھ یہ لفظ اپنی افادیت اور اہیمت کافی حد تک کھو گئی ہے۔
کسی بھی انقلاب کے لیئے زمینی حالات کا ساز گار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر آج کے حالات کا تناظر بنایا جائے اوّر اس کو سماجی سائنس کے اصولوں اور قاعدوں کے مطابق جانچا جائے تو یقیناً یہی تجزیہ کیا جاتا ہے کہ جب موضوعی حالات ایسے ہوں تو عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ سیاسی حالات ایک بہت بڑی تبدیلی کی جانب سفر کر رہے ہیں۔
بیرونی قرضہ جات آئی ایم ایف کے لاگو قانون، اشرافیہ اور مخصوص ٹولے کی مسلسل ہٹ دھرمی، کرپشن، لوٹ مار، لاقانونیت، انصاف اور قانون پر بے بھروسگی، کمزور ملکی ادارے، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، افلاس سے دوچار وطن میں ایک بہت بڑی تبدیلی کے لیئے راستہ ہموار ہے۔ اس کے لیئے ضرورت ہے ایک انقلابی قومی جماعت کی۔ جس کی خلا کو محسوس کیا جاتا ہے۔ اس ضرورت کو ابھی تک بائیں بازو کے جماعتوں اور ترقی پسند قوم دوستوں نے محسوس نہیں کی ہے۔
پاکستان کے سیاسی تاریخ میں غالباً یہ دوسرا مرتبہ ہوگا جہاں تاریخ تمام ترقی پسندوں اور بائیں بازو کے جماعتوں کو لیئے ایک ایسی نہج پر کھڑی ہے۔ جہاں تمام ترقی پسند اور بائیں بازو کے پارٹیاں ایک مذہبی بنیاد پرست کے ساتھ نہ صرف ایک پیج پر موجود ہیں بلکہ تمام مسائل کے حل کی ضمانت کا امید بھی لگائے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کے پیشرو اپنے وقت کے بڑے ترقی پسند اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔ جن میں باچا خان اور ولی کے پیروکاروں سے لیکر بزنجو بھٹو اچکزئی کے مریدوں تک سبھی شامل ہیں۔
اس سے پہلے PNA کے تحریک میں مولانا صاحب کے والد صاحب مولانا مفتی محمود نے ملک کے تمام ترقی پسندوں کو بھٹو کے خلاف یکجا کیا تھا ۔PNA کے مطالبات اور آج کے ملا اور ترقی پسند اتحاد میں طریقہ کار اور مطالبات میں بہت فرق پایا جاتا ہے ۔ PNA کے زیادہ تر مطالبات سیاسی نوعیت کے تھے ان میں بلوچستان میں جاری فوج کشی کی روک اور سیاسی قیدیوں کے رہائی کے مطالبات بھی شامل تھے ۔ لیکن آج کے ملا ترقی پسند اتحاد میں یہ نقص پایا جاتا ہے ۔ نقص کجا بلکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک پارٹی لاپتہ افراد کے رہائی کے سخت مخالفین میں شامل ہے ۔ جس کی صورت حال بلا شرط اور شروط کے عبداللہ کے شادی میں دیوانوں کی سی کیفیت سے کسی حد تک کم نہیں ۔ ورنہ بلوچستان کے بہت سارے مسائل اس وقت حل ہوسکتے تھے۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا خمینی ایک فرد کی تبدیلی کا مدعا لیے اپنے مطالبات کو منوانے پر ڈٹا ہوا ہے اگر اپنے سنگل مطالبات منوانے میں کامیاب رہے بھی تو ہزاروں اربوں روپوں کے مقروض اور سڑی گلی اس نظام کا علاج کرانے کہاں ابن مریم لائے گا۔
نفاق اور تضادات سے بھری یہ اتحاد اب تک مارگلہ کے سبز پہاڑوں کے سائے میں خیمہ زن ہو گئے ہوں گے ۔ دیکھتے ہیں کہ فکر وپروگرام اور بغیر کسی سمت کے یہ کاروان ننگے بھوکے پیاسے اور انصاف کا راستہ تکے عام جنتا کی زندگیوں میں کیا سحر لائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔