پاکستان آرمی ، پنجابی مفادات کا محافظ
تحریر : ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستانی فوج اگر خانہ کعبہ سے لپٹ کر روتے ہوئے بھی کہے کہ وہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی تب بھی اس پر یقین کرنا نری حماقت ہوگی ـ وجہ سیدھی ہے فوج کے معاشی مفادات وسیع سطح پر پھیلے ہوئے اور گہرائی تک پیوست ہیں ـ ان مفادات کا تحفظ فوج کو مجبور کرتا ہے وہ سیاست میں مکمل طور پر ملوث رہے ـ فوجی قوت کا منبع پنجاب ہے اس لیے پنجاب کی بالادستی پر سمجھوتہ بھی ناممکنات میں سے ہے ـ
شاید متعدد افراد نے مولانا فضل الرحمن کے حالیہ دھرنے کے حوالے سے دھرنا مخالف پنجابی لکھاریوں کے ایک نکتے کا مشاہدہ کیا ہو ـ یہ لکھاری ایک چیز کی بار بار حقارت کے ساتھ نشاندہی کررہے تھے کہ مولانا کے دھرنے میں صرف کے پی اور بلوچستان کے افراد شامل ہیں یہ “قومی سطح” کا احتجاج نہیں ہے ـ پاکستان بالخصوص پنجاب میں “قومی سطح” سے مراد عموماً پنجاب ہی لیا جاتا ہے ـ جیسے بھٹو یا جناح کو “قومی سطح” کا رہنما قرار دیا جاتا ہے حالانکہ یہ دونوں کبھی بھی پشتون بلوچ خطوں میں قابلِ قبول نہیں رہے ـ دورِ حاضر میں پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود ہونے کا طعنہ دے کر اسے حقارت کے ساتھ علاقائی جماعت کے نام سے پکارا جاتا ہے ـ اسی طرح مینگل، اچکزئی، بزنجو یا اسفندیار کو بھی علاقائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ جی ٹی روڈ کے نواز شریف “قومی” رہنما تصور کیے جاتے ہیں ـ یہ پنجاب کی بالادستی اور فیصلہ کن حیثیت کی جانب اشارہ ہیں ـ پنجاب کو یہ مقام کسی اور نے نہیں فوج نے ہی دے رکھی ہے جس کی لوٹی ہوئی دولت کا گودام پنجاب ہے ـ
اس میں کوئی شک نہیں پنجاب ایک طبقاتی سماج ہے جہاں کا محنت کش و کسان استحصال کا شکار ہے تاہم پنجاب اور بلوچستان کے محنت کش کے استحصال کی نوعیت کو یکساں قرار دینا “اکیڈمک مارکسزم” کی رو سے درست ہوسکتا ہے لیکن معروضی حقائق کی روشنی میں یہ سراسر غلط ہے ـ پنجاب کا محنت کش و کسان قومی جبر سے ناآشنا ہے ـ پنجابی محنت کش کی آواز بہرکیف کسی نہ کسی حد تک سنی جاتی ہے لیکن بلوچ محنت کش پاکستان کے معروض میں موضوعی لحاظ سے وجود ہی نہیں رکھتا ـ ایک حالیہ مثال سے بات سمجھانے کی کوشش کرنا چاہوں گا ـ
ابھی چند دن قبل کیچ مکران کے صدرمقام تربت کے مضافاتی علاقے بلیدہ سے تین افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ـ پاکستانی چینلز نے اپنے پرائم ٹائم بلیٹن میں آخر وقت اس واقعے کا سرسری سا ذکر کیا ـ “مین اسٹریم” میڈیا کی نظر اندازی کے باعث سوشل میڈیا پر بھی کسی نے اس خبر کو توجہ کے قابل نہ سمجھا حتی کہ “اکیڈمک پاکستانی مارکسیوں” نے بھی توجہ نہیں دی ـ حالانکہ ان افراد کے قتل کی ذمہ داری بلوچ سرمچاروں کے ایک گروپ نے قبول کی ہے ـ بلوچ سرمچاروں کے حوالے سے پنجاب میں عمومی اتفاقِ رائے نظر آتا ہے کہ وہ دہشتگرد ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب خاموش رہا ـ اس خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ لاشیں بلوچ ہیں، اگر پنجابی لاشیں ہوتیں تو اس وقت پاکستانی زمین آسمان ایک کررہے ہوتے اور معذرت خواہ بلوچ مارکسی وضاحتیں دے رہے ہوتے ـ یہی وہ تضاد ہے جو بلوچستان کے استحصال کی نوعیت طے کرتا ہے ـ
سوشل میڈیا پر میرا عمومی مشاہدہ ہے کہ “پڑھے لکھے” پنجابی (بعض اردو اسپیکنگ بھی) بلوچستان جانے کے ذکر پر یہ کہتے پائے جاتے ہیں “بلوچستان جانا چاہتا/چاہتی ہوں لیکن ڈر ہے کوئی شناختی کارڈ چیک کرکے نہ مار دے” ـ مانتے ہیں بلوچ معاشرہ پنجابی کو قبول نہیں کرتا، عام و خاص بلوچ یہی سمجھتا ہے کہ ہمارے بے انت دکھوں کی ذمہ داری بلاتخصیص تمام پنجابیوں پر عائد ہوتی ہے ـ اس غصے اور نفرت کی جڑیں گہری ہیں بجائے اس کا تجزیہ کرنے کے کہ ایسا کیوں ہے سردار سردار کی رٹ لگا کر آخر میں منافقانہ جملہ داغ دیا جاتا ہے کہ جی ہم تو بلوچیوں سے محبت کرتے ہیں ـ بہرحال شدید نفرت کے باوجود پنجابیوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ ایران جانے کے لیے جیونی و تفتان بارڈر استعمال کرتے رہتے ہیں ـ یقین نہ آئے تو کسی دن کراچی یا کوئٹہ ٹرمینل کا چکر لگا کر دیکھ لیں ـ سال میں ایک دفعہ چار پنجابی مارے جائیں تو اتنا واویلا لیکن منٹوں کے حساب سے لاپتہ و قتل ہونے والے بلوچ کا کوئی حساب نہیں ـ استحصال کی ایک شکل یہ بھی تو ہے ـ
ایسے پنجابی ایکٹوسٹ بھی مشاہدے میں آتے ہیں جو اٹھتے بیٹھتے بلوچ کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں ـ کیا کبھی آپ نے سنا یا دیکھا کسی پنجابی ایکٹوسٹ نے کشمیری یا فلسطینی پر کبھی ایسا احسان جتایا ہو؟ ـ ایسے مارکسی بھی پاکستان میں وجود رکھتے ہیں جو سمجھتے ہیں بلوچ تحریک کی حمایت اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ اس کے مسلح سرمچاروں نے فلاں سال اتنے پنجابی محنت کش قتل کیے لہذا ایک محنت کش مخالف تحریک کی حمایت کرنا مارکسزم نہیں لیکن دوسری سانس میں یہ ہندو پنڈتوں کے قتل میں ملوث کشمیری تحریک اور عام اسرائیلی کو یہودی کہہ کر صفحہ ہستی سے مٹانے کی فلسطینی تحریک کے لیے روتے نظر آتے ہیں ـ وہاں موقف بدل جاتا ہے، وہاں کشمیری اور فلسطینی مظلوموں کے ساتھ یکجہتی انسانیت کا روپ اختیار کرلیتی ہے ـ اچھی خبر یہ ہے بلوچ سے مظلومیت بھی چھینی جاچکی ہے ـ
اس تمام قضیے میں اہم ترین کردار پاکستانی فوج کی ہے ـ پاکستان فوج کی قوت پنجاب ہے ـ سو پنجاب ایک طاقت ہے ـ جی ٹی روڈ کے رہنما نواز شریف کی حالیہ لڑائی بھی محض لوٹی ہوئی دولت پر حصہ داری کی جنگ ہے اس کا کسی قومی یا طبقاتی جبر سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ان کو نواب اکبر خان بگٹی سے تشبیہہ نہ دیں ـ نواز شریف بلوچستان کے رہنما ہوتے تو اب تک کسی ویرانے سے ان کی لاش مل چکی ہوتی ـ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔