نیشنل ازم اور نیشنلسٹ – قاضی ریحان

1276

نیشنل ازم اور نیشنلسٹ

تحریر : قاضی ریحان

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے بلوچ آزادی پسند اردو لکھنے والے لکھاریوں، خبرچیوں (صحافت ایک طویل ریاضت اور وسیع مطالعے کا تقاضا کرتی ہے) سے ایک گلہ رہا ہے اور میں نے بساط بھر اسے گوش گزار کرنے کی کوشش کی ہے کہ ” مسلمان اردو ” اور ” محب وطن سبز پاکستانی ” اردو کی اندھی تقلید کرکے اصطلاحات اور الفاظوں کی ارواح قبض کرنے کی بجائے بطور لکھاری اپنی پختگی کا ثبوت دیں ۔

بلوچستان پوسٹ نے ڈاکٹرمالک کے لیے” قوم پرست ”( یہ اصطلاح از خود استعماری اور ملائی سوچ کا دین ہے لفظ ” نیشنلسٹ ” کا اردو میں درست نعم البدل ”قوم نواز یا قوم دوست ” ہے ۔ اردو کے مولویوں نے اس میں ”پرستش ” کا لفظ ڈال کر اصل میں قوم نوازوں پر کفر کا لیبل چسپاں کیا ہے اور منفی تاثر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ) کی اصطلاح استعمال کرکے اس کے مفہوم کو ایسے ہی بگاڑ دیا ہے جیسے اردو صحافیوں نے بگاڑا ہے ۔

یہ بات گزشتہ کچھ سالوں سے نوٹس کی جارہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں قوم نواز جماعتوں کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کی جارہی ہے ۔ اس کی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ عالمی میڈیا علاقائی صحافیوں پر انحصار کرتا ہے ۔ عموما نوخیز صحافی گہرے مطالعے کے گر سے واقف نہیں ہوتے وہ لفظوں کو جوں کا توں اچک لیتے ہیں پھر ان کو بے تحاشا غلط استعمال کرکے ” غلط العام ” بناتے ہیں ۔ بلوچوں کے کئی بظاہر اچھے لکھاری غلط العام سے انسیت رکھتے ہیں جو دراصل کاہل لکھاریوں کی پہچان ہے۔ایک اچھا لکھاری جس زبان میں لکھتا ہے اس کی لغت پر عالمانہ توجہ دیتا ہے نا کہ عامیانہ ۔ چوں کہ ہمارے ہاں قوم پرستی کی اصطلاح غلط استعمال ہوئی پھر یہ لیبل ان کرداروں پر بھی چسپاں کیا جانے لگا جو نا خود کو قوم نواز مانتے ہیں نا ہی ان کی سیاست کا محور قوم نوازیت ہے ۔ جیسا کہ اردو میڈیا نریندرمودی کے لیے بھی ہندونواز کی بجائے قوم پرست استعمال کرتے ہیں، ایک آزادملک کا وزیراعظم کیسے قوم نواز کہلا سکتا ہے؟

قوم نواز یا نیشنلسٹ ایک سیاسی اصطلاح ہے یہ ایک عام ادبی یا لسانی ترکیب نہیں ہے ۔ اس کے لغوی معنی کو ایک آسان تاثر پیدا کرنے کے لیے لیا گیا ہے جب کہ اس کا مفہوم ایک سیاسی نظریے کی تشریح کرتا ہے ۔ ” ایک ایسا فرد یا گروہ جو اپنی قوم آزادی یعنی کہ الگ قومی ریاست کا خواہاں ہو اسے قوم نواز کہا جاتا ہے ۔ ”

ڈاکٹرمالک ماضی میں ضرور قوم نواز رہا ہوگا لیکن نیشنل پارٹی کی تشکیل کرکے انہوں نے شعوری طور پر قوم نواز سیاست سے کنارہ کشی کی ۔ ریاست کلات کی تاریخی جھنڈے کو ترمیم کرکے اس میں چار ستارے ڈالے جو پاکستان کے چاروں صوبوں کی علامت ہیں۔ نیشنل پارٹی کا پاکستانی مرکزیت کے مطابق ڈھانچہ تشکیل دیا،. اب نیشنل پارٹی کے ڈھانچے کےحساب سے ” صوبہ بلوچستان ” کا ایک الگ سیٹ اپ ہے ۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں اب کوئی خاص فرق نہیں رہا۔

قوم نواز اور دوجماعتوں کو سمجھنے کا سادہ اصول ہے جو جماعت کسی قوم کی آزادی کی خواہاں ہو وہ قوم نواز کہلاتی ہے ۔ اب دیکھیں کہ اس تعریف پر کون کونسی جماعتیں پوری اترتی ہیں ۔

قوم نوازی دراصل ایک تحریک ہے جو وطن کی آزادی کے بعد نئی شکل میں ڈھل جاتی ہے ۔ قوم نواز جماعتیں آزادی حاصل کرنے بعد اپنے اپنے سیاسی نظریات کے مطابق نام اختیار کرتی ہیں ۔ نیشنل پارٹی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے نام و نشان سے گلوخلاصی کرکے یہی کچھ کیا ہے۔

اس اصطلاح کے منفی مفہوم میں استعمال کرنے کی ایک دوسری بڑی وجہ سرمایہ دارانہ میڈیا ہے ۔ بڑی اجارہ داریاں (ملٹی نیشنل کمپنیاں) نیشنل ازم کو اپنی توسیع پسندانہ سرمایہ داری کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں ۔ اس لیے مغربی ممالک میں نیشنلسٹوں کو قابل نفرت سمجھا جاتا ہے ۔ نسل پرستوں، بنیادپرستوں اور شاؤنسٹ خیالات رکھنے والے عناصر کے لیے دانستا طور پر نیشنلسٹ کی اصطلاح استعمال کرکے عوامی سوچ کو گمراہ کیا گیا ہے ۔ انہی خیالات کے زیراثر واجوخیربخش مری کے فرزند ھیربیار نے اپنے لیے پٹریاٹ کا لفظ چنا اس پر واجوخیربخش نے باقاعدہ اخباری بیان کے ذریعے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ واجوخیربخش نے فرمایا کہ قوم نوازیت ایک مکمل اور وسیع اصطلاح ہے اسے ترک کرکے پیٹریاٹ کا لفظ اختیار کرنا درست نہیں۔

ملا پہلے سے ہی قوم نوازوں کو تصورامہ کے خلاف سمجھتے تھے ۔ سبز اردو نے جس طرح اردو کو مسلمان کیا تھا، قوم کو بھی مسلم اور غیرمسلم کے خانوں میں پاٹ کر دو قومی نظریہ تراشا، قوم نوازیت اس نظریہ کو غلط سمجھتی ہے۔ دیکھا دیکھی مارکس وادیوں کو بھی احساس ہوا کہ قوم نوازیت ان کے انقلاب درامد کرنے کے کاروبار کو قومی خودمختاری کے خلاف سمجتی ہے ۔ قوم نواز بجاطور پر تمام عالمگیر سیاسی رجحانات کو حدود و قیود میں رکھتے ہیں ۔ مارکس وادیوں اور قوم نوازوں کے درمیان تفریق اس لیے بھی بڑھی کہ مارکس وادیوں نے مقامی اجتماعی شعور اور اس سے جنم لینے والے نظریات کو بری طرح نظرانداز کیا۔ اس طبقے نے جو موٹی موٹی کتابیں لکھیں اس میں قومی سوال کو حاشیہ میں رکھا۔ ہر ملک میں پٹریاٹ مارکس وادیوں نے حاشیہ پر موجود قومی سوال پر بھی خط تنسیخ کھینچا۔ یوں لکھاریوں کے اس موخرالذکر طبقے نے بھی قوم نوازوں کو پرے دھکیلا۔

قوم نوازوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے سیاسی لٹریچر کا فقدان ہے ۔ قوم نواز لکھاری مارکس وادی لٹریچر سے بری طرح متاثر ہیں ۔ بلوچ لکھاریاں تو شدبد کے ساتھ ان کی تقلید کرتے ہیں ۔

بلوچستان پوسٹ جیسے اداروں کو چاہئے کہ وہ قوم نواز لٹریچر کے پھیلاؤ کے لیے علمی اور تحقیقی کاموں کی حوصلہ افزائی کرئے ۔ بطور میڈیا بلوچستان پوسٹ کو غیرجانبدار رہ کر ہی کام کرنا چاہئے لیکن اس کی ادارتی پالیسی بلوچ قوم نواز سیاسی سوچ کا ترجمان رہے ، اس تشخص اور صحافت کے درمیان اعتدال نہیں بلکہ تشخص کی طرف واضح جھکاؤ ہونا ہی تحریکی عمل ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔