ماما قدیر بلوچ کی پیران سالی میں دلیرانہ جدوجہد
تحریر: آزاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بی آر پی کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور ماما قدیر بلوچ کے بیٹے شہید جلیل ریکی کو 13 فروری 2009 کو سریاب روڈ کیچی بیگ سے آئی ایس آئی اور ایف سی کے اہلکار اٹھا کر لے گئے اور تین سال تک اپنے خفیہ ٹارچر سیلوں میں طرح طرح کے ٹارچر کرتے رہے لیکن پھر بھی وہ اپنے موقف آزاد بلوچستان پے ڈٹے رہے۔
شہید جلیل ریکی کی مخلصانہ دن رات جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ ہر وقت بلوچ قوم کو انکی محرومیوں سے آگاہ کرتا اور انکو مخلصانہ جدوجہد کے ذریعے غلامی سے آزادی کا یقین دلاتا رہا۔
23 نومبر 2011 کو اسکو شھید کرکے اسکی لاش تربت کے علاقے مند میں ایک اور جانباز بلوچ شھید ٹیھکدار یونس بلوچ کے ساتھ پھینکی گئی۔
اپنے بیٹے کی شھادت کے بعد بھی ماما قدیر کے قدم نہیں رکے بلکہ اسکا حوصلہ اور بلند و پختہ ہو گیا اور وہ روزانہ کے بنیاد پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتا رہا۔
اس دوران ماما کی قیادت میں دنیا کا طویل ترین پیدل لانگ مارچ کوئٹہ سے کراچی پھر کراچی سے اسلام آباد تک کیا گیا، اس لانگ مارچ کے دوران ماما کو طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہاں تک کے کبھی ان کو ٹرک سے ٹکر مارنے کی کوشش کی گئی، کبھی فائرنگ کرکے ڈرایا گیا لیکن پھر بھی یہ قدم نہیں رکے، کیسے رکتے آخر یہ قدم، لانگ مارچ میں شریک ان ماؤں، بہنوں کے قدم تھے جن کے بیٹے یا بھائی دس دس سالوں سے لاپتہ تھے۔
سردی یا گرمی یا پھر بارش یا برف باری ماما کا احتجاج جاری رہتا۔ ماما ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کی آرزو دل میں لے کر اپنا احتجاجی کیمپ کبھی کوئٹہ سے کراچی یا تو پھر کبھی اسلام اباد منتقل کرتا رہتا ہے۔
اور یہ دس سال سے جاری احتجاج کے دوران ماما نے سنہ 2014 میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں امریکہ کا بھی دورہ کیا۔
ماما قدیر بلوچ نے 2018 میں جنیوا کا دورہ بھی کیا اور جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے اجلاسوں میں بھی شرکت کی۔ اور آج تک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نام سے ماما قدیر اور بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کا احتجاج جاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔