لاپتہ افراد کی تفصیلات جمع کرنے والا خود پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ

348
انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کی مبینہ جبری گمشدگی پر پاکستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی رہنماؤں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

ادریس خٹک سیاسی طور پر ایک نیشنل پارٹی سے وابستہ ہیں جبکہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بھی کام کر چکے ہیں، ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کا ریکارڈ مرتب کر رہے تھے۔ انہیں تقریبا چھ دن پہلے صوابی انٹر چینج سے نامعلوم افراد نے ڈرائیور سمیت اٹھا لیا تھا۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق ان کے ڈرائیور کو بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن وہ اب بھی لا پتہ ہیں۔

ان کی مبینہ جبری گمشدگی پر سیاسی اور سماجی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بھی ان کی جبری گمشدگی  پر تبصرے کے جارہے ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے عالمی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ بڑا خطرناک رجحان ہے کہ ریاست اختلافی آوازوں کو دبا رہی ہے اور سیاسی مخالفین کو خاموش کرا رہی ہے جب کہ ہزاروں انسانوں کے قاتل طالبان کو پروٹوکول دیا جارہا ہے اور ان کو خیبرپختونخواہ میں کام کرنے کی کھلی آزادی دی جا رہی ہے۔ ادریس خٹک کو مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا ہے اور ستم یہ ہے کہ آخری اطلاعات تک اغوا کاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی جا رہی تھی۔

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکومت انسانی حقوق اور سیاسی کارکنوں کی آوازیں دبانے کا سلسلہ بند کرے اور ادریس کو فوری طور پر بازیاب کرائے، پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور یو این کے ہیومن رائٹس کمیشن کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے، لوگوں کو اغوا کرنے کے سلسلے کو فوری طور پر بند کیا جانا چاہیے۔

پاکستان میں جبری گمشدگی کے معاملے کو کئی حلقے سنگین قرار دیتے ہیں،سابق وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی اس مسئلے پر خاموش نہیں رہے گی، میں ذاتی طور پر ادریس خٹک کو جانتا ہوں۔ وہ ایک انتہائی شریف انسان ہے لیکن فرض کر بھی لیں کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے تو آپ اس کو عدالت میں پیش کریں۔ ہم ادریس سمیت جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے معاملےکو عدالتوں اور پارلمینٹ سمیت ہر فورم پر اٹھائیں گے، اس سے ملک کے بدنامی ہو رہی ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اس طرح شہریوں کو نہیں اٹھایا جاتا ۔