نیشنل پارٹی کے صوبائی سوشل میڈیا سیکریٹری سعد دہوار بلوچ نے طلبہ یونینز کی بحالی کے لیئے 29 نومبر کو ہونے والے ملک گیر مارچ سے متعلق اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ فروری 1984 میں جنرل ضیاءالحق کے فوجی آمریت میں طلباء یونینز، ٹریڈ یونینز اور مزدور یونینز پر پابندی دراصل اظہار آزادی رائے پر پابندی تھی۔ یہ جنرل ضیاءالحق کے ان تمام غیر جمہوری اور غیر آئینی پالیسوں کے تسلسل کا حصہ تھے جو اپنے دور آمریت کو تقویت بخشنے کے لیئے کرتے آرہے تھے۔ آئین کا آرٹیکل 17 ہر پاکستانی شہری کو یونین سازی کی اجازت اور ضمانت دیتا ہے۔ اس وقت پورے ملک کی دو تہائی اکثریتی آبادی جو کہ 15 سے 30 سال کے درمیان ہے، نوجوانوں پر مشتمل ہیں جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں ہر 5 سال بعد ایک نیا نسل بالغ عمری کو پہنچتا ہے۔
انہوں نے کہا چنانچہ گذشتہ 35 سالوں سے نوجوانوں کو سیاسی نرسری سے دور رکھ اس ملک کے جمہوری نظام کو کھوکھلا اور کمزور کردیا گیا ہے جس سے معاشرے میں بے چینی اور عدم استحکام پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں نظریاتی سیاسی کارکنوں کے لیئے سیاست اور انتخابات کو مشکل بنادیا گیا جس کے بدولت پارلیمان میں غیر سیاسی تربیت یافتہ لوگوں کا ہجوم قابض ہوکر جمہوری نظام کے مضبوطی کے لیئے اپنا کردار ادا کرنے سے اب تک قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا نا صرف سرگرم سیاست بلکہ ملک کی کمرشل تعلیمی نظام نے حصول تعلیم کو بھی طبقاتی بنادیا ہے جہاں ایک مزدور، ہاری، کسان اور مڈل کلاس کے بچے کے لیئے کوالٹی ایجوکیشن محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے جس کے بدولت آج پورے ملک میں تعلیم کا شرح صرف 58 فیصد ہے جب کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ اور فراغت تعلیم کے بعد حصول روزگار بہت مشکل کام بن چکا ہے جس سے ملک کے اندر خودکشیوں کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے کہا گذشتہ ماہ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آیا جس سے بنیادی انسانی حقوق کے مسئلے نے جنم لیا لیکن افسوس کہ ابھی تک نامزد ملزمان کو گرفتار کر کے شامل تفتیش کرنے کی بجائے وہ ملزمان آزادانہ گھوم رہے ہیں اور گذشتہ دنوں چانسلر جامعہ بلوچستان کی جانب سے جامعہ کے اندر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا نوٹیفکیشن یہ ظاہر کرتا ہے کہ وقت کے حکمران حق سیاست سے عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہر صورت محروم رکھنا چاہتے ہیں، چناچہ یہ المیہ شاخسانہ ہے اس معاشرتی بگاڑ کا جس نے اس ملک کے اندر سیاست کو شجر ممنوعہ بنا دیا ہے، طلبہ سیاست اور طلبہ یونینز وقت اور سیاست کی اہم ضرورت ہے جس سے معاشرے میں نئی قیادت جو شعور، سیاسی عمل اور سیاسی تربیت سے گزر کر آئی ہو پیدا ہوتی ہیں اور اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کر کسی زی شعور فرد کے لیئے ممکن نہیں۔ اسی نقطے کی اہمیت سے متعلق ایوان بالا میں پارٹی کے مرکزی قائد سینیٹر میر حاصل بزنجو نے فروری 2017 میں سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی اور اقدامات کے متعلق قرارداد بھی منظور کروایا۔ طلبہ یونین اور طلبہ سیاست کے بحالی کے لیئے حال ہی میں ہونے والے مختلف طلبہ تنظیموں کی یونینز کے لیئے مہم انتہائی مثبت سیاسی سرگرمی ہے، جس سے مستقبل قریب اور بعید میں طلبہ سیاست کے لیئے نیک شگون ثابت ہوگا،طلبہ سیاست معاشرے میں ریڈھ کی حثیت رکھتی ہے طلبہ سیاست کو بحال ہر صورت میں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل پارٹی 29 نومبر کو “طلبہ یکجہتی مارچ” کی بھرپور حمایت کرتی ہے بلکہ مختلف شہروں میں جاری اس طلبہ مارچ کا حصہ بھی بنے گی،نیشنل پارٹی ملک میں مثبت جمہوری ترقی پسند سیاست اور طلبہ یونینز کی ہمیشہ سے حامی رہی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ملک بھر کے ٹریڈ یونیز، لیبر تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں مل کر طلبہ یونین مہم میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں اور اس سلسلے میں ہونے والے “طلبہ یکجتی مارچ” میں شامل ہوکر طلبہ یونینز کے بحالی مہم کا حصہ بنیں کیونکہ طلبہ یونینز ہی بہتر جمہوری مستقبل کا نرسری اور ضامن ہے۔