بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی زون کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ طلبہ یکجہتی مارچ ایک نئی تحریک کی شکل میں پورے ملک میں ابھر رہی ہے اور اس کے بنیادی مطالبات میں ملک میں طلبہ یونین پر پابندی کا خاتمہ اور قومی سطح پر ان کے انتخابات ہیں، یہ تحریک تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف، مفت تعلیم کے حق اور تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی فورسز کے انخلاء، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں قوم، زبان، صنف یا مذہب کی بنیاد پر تعصب اور نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ایک مضبوط قدم ہے یقیناً آنے والی نئی نسل ان مطالبات کی حصول سے مستفید ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی نمائندگی ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے تعلیمی مفادات کا اچھی طرح دفاع کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اس سہولت سے محروم ہیں جوکہ طلباء کے آئینی و جمہوری حق پر قدغن اور ناانصافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف حکومت اور تعلیمی ادارے طلبہ سیاست پر ڈھونگ رچا رہے ہیں لیکن اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں غیر سیاسی و مذہبی شدت پسند طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیکر طلباء کو ان کی آئینی و جمہوری حقوق سے بے خبر کرکے معاملات کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں ، تقاضا یہی ہے کہ تعلیمی اداروں میں سالانہ انتخابات کے ذریعے طلبہ کو نمائندگی کا حق دیا جائے جو صحیح معنوں میں اپنے جائز حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں طلبہ تحریک سے وابستہ تنظیمیں 29 نومبر کو ملک گیر احتجاج کے لیے اکھٹی ہو رہی ہیں، اس احتجاج کو ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کا نام دیا گیا ہے،بی ایس او کراچی زون اس مارچ کی حمایت کے ساتھ ساتھ ہر مکتبہِ فکر کے افراد و تنظیموں سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ طلباء کا ساتھ دیکر طلباء یکجہتی مارچ میں شرکت کرکے اسے کامیاب بنائیں۔