طبیب اصغر سے سوال؟
تحریر: حسن دوست بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دی بلوچستان پوسٹ میں ڈاکٹر مالک (طبیب اصغر) کا ایک انٹرویو نظروں سے گذرا، جو مکمل وہی پاکستانی روایتی انداز میں تھا۔ پاکستانی میڈیا سب کچھ جانتے ہوئے بھی دو نمبر سیاستدانوں کو انٹرویو کرتے ہوئے یا کوئی تجزیہ کرتے ہوئے خود بے شرمی اور خجالت کے ساتھ سوال اٹھاتے ہیں جنکو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ سامنے بیٹھا ہوا دو نمبر لیڈر اس کے جواب میں مکمل جھوٹ بولے گا۔ جس کا جیتا جاگتا مثال حامد میر کا پروگرام کیپیٹل ٹاک ہے، جس میں وہ دو نمبر اور بے ضمیر سیاستدانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن ان بے ضمیروں کو آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ایسی بے ضمیری کا انجیکشن لگایا ہے کہ بے شرمی انکو دیکھ کے خود شرما جائے۔
بالکل اسی طرح بلوچستان کے نام نہاد قوم پرستوں (جن کے ساتھ قوم پرست لکھنا قوم پرستی کے ساتھ ظلم ہے) کی حالت بھی اسی طرح ہے کیونکہ انکو بھی وہی جی ۔ایچ ۔ کیو کی لیباریٹری سے ٹیکہ لگایا گیا ہے، جہاں سے باقی پاکستانی سیاستدانوں کو لگایا جاتا ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر مالک کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے، وہ آج کے اس جدید دور میں بھی سورج کو انگلی سے چھپانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران وہ بدنام زمانہ میر جعفر و میر صادق کا کردار ادا کرتا رہ۔ میں یہاں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر میر جعفر و میر صادق زندہ ہوتے ضرور شرما جاتے کیونکہ آج بھی میر صادق و میر جعفر کے اولاد اسی ڈگر پے (جو سرکار کے لئے مخبری کرکے اپنے بازوؤں کو راہ راست سے ہٹانے یا قتل کرنے کی )ناپاک کام کرتے رہے ہیں، جس راستے پے انکے والد یا دادا ہوا کرتے تھے ۔ بلکل اسی طرح ڈاکٹر مالک اور اس کے مداری بلوچ جہد آزادی کو روکنے میں میر جعفر و میر صادق کو بہت پیچھے چھوڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کیونکہ بقول اس کے جب نواب خیربخش مری اور غوث بخش بزنجو کے مابین اختلافات ہوئے تو واقعی وہ سیاسی نوعیت کے تھے اور اس وقت جناب والا نواب خیربخش مری کی سوچ کے ساتھ پیوستہ ہوگئے، جو مکمل بلوچ وطن کی آزادی پر محیط ہوکر صرف مسلح جدوجہد کو راہ نجات سمجھتے تھے اور خیربخش مری آزادی کے سوا کسی بھی نقطے پر راضی نہیں تھے۔
اس کے برعکس نواب خیربخش مری کی فکر سے قربت کے باوجود موصوف نے نواب خیربخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل ، نواب اکبر خان بگٹی اور بلوچستان کے تمام سرداروں کو بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے بلوچستان کے قبائلی نظام سمیت سرداروں کے خلاف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بلوچستان کے سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا۔
اسی دوران متوسط طبقہ رونما ہوا، مڈل کلاس (یہ الگ بحث ہے بلوچ سماج میں کوئی اس طرح کا کلاس وجود نہیں رکھتا، جس کو طبیب اکبر و طبیب اصغر لیکر آئے تھے) معرض وجود میں آئی، ظالم و مظلوم کا نعرہ بلند ہوا۔
ایک سوال کے جواب میں طبیب اصغر صاحب خود ڈھٹائی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ بلوچ سیاست میں جو تقسیمات ہوئے وہ صرف اپنی لیڈری چمکانے یا پیسہ کمانے کیلئے کیا گیا۔ یہاں پہ ڈاکٹر مالک (طبیب اصغر ) منافقت کی انتہا کو پہنچتے ہوئے بھی ذرا سا ندامت محسوس نہیں کرتا کہ پیسہ کمانے اور درباری لیڈر اور بلوچ سیاسی ورکروں کو کرپٹ کرنے اور پاکستانی خفیہ اداروں کے مخبر بنانے اور بلوچ سیاست کا منہ کالا کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو سیاست سے دور کرنے اور بد اعتماد کرنے میں اس کا بھی برائے راست حصہ تھا اور اب تک ہے۔ جس کو تاریخ ہمیشہ سیاہ باب کے طور پر یاد کریگی۔
طبیب اصغر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جب حیدر آباد سازش کیس ختم ہوا تو دوستوں کی خواہش تھی کہ نواب خیر بخش مری سے ملکر انقلابی پارٹی تشکیل دی جائے اور رازق بگٹی کو یہ ذمہ داری دی گئی، جو نواب خیر بخش مری سے قربت رکھتے تھے لیکن بہت کوششوں اور آرزؤں کے باوجود یہ خواہش پوری نہیں ہوئی، تب جاکر دوستوں نے بلوچستان لبریشن موؤمنٹ تشکیل دی اور اس دوران ثور انقلاب اور ایرانی انقلاب آئے، جس نے ہمیں بہت ہی جذباتی بنایا۔ اس دوران بی ایس او کا جو کنونشن بلوچستان یونیورسٹی میں ہوا، اس میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ترقی پسند اور قومی آزادی کے نمائندوں نے شرکت کی، اس کامیاب کنونشن کے ردعمل میں جنرل رحیم الدین جو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر بلوچستان تھے نے کئی کارکنوں اور قائدین کی وارنٹ گرفتاری جاری کی۔
واقعی جوانی کی جوش میں طبیب اصغر صاحب بلوچ نوجوانوں کو اپنی جذبات کی بنیاد پر پہاڑوں پر چڑھایا اور خود جاکر جنرل رحیم الدین سے ملکر بلوچ جوانوں کے سر کا سودا کیا۔ بلکل اسی طرح جیسے آئی ایس آئی اور ایم آئی نے افغان طالبان اور القائدہ کے ساتھ کیا۔ پہلے انکو بنایا پھر ضرورت کے مطابق اسامہ بن لادن سے لیکر افغان طالبان لیڈروں تک سب کو ڈالر کے عوض امریکہ کے حوالے کیا یا انکو قتل کیا۔
یہاں پہ دروغ گوئی کرتے ہوئے تھوڑا سا بھی شرم محسوس نہیں کرتے کیونکہ اسی دوران نواب خیربخش مری سے ملنے کیلئے شہید فدا احمد بلوچ کو کابل روانہ کیا گیا اور شہید فدا احمد کچھ وقت کابل میں گذار کر آئے اور تمام دوستوں کا اتفاق تھا بلوچستان کو آزاد کرنے کا واحد زریعہ جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد لازمی ہے۔ اور شہید فدا احمد اور اسکے رفقاء (جن میں طبیب اصغر کی سربراہی میں آستین کے سانپ موجود تھے ) پاکستانی فریم ورک یا پارلیمانی سیاست کے حق میں بالکل نہیں تھے۔
اور یہیں سے محترم کو پیسے کا شوق ہوا اور اندرونی طور پے جنرل رحیم الدین کی ٹیم میں پہلے سے شامل تھے۔ جو اپنی نوکری کو فالو کرتے ہوئے جو بلوچ نوجوان یا کماش بلوچ سیاست میں حقیقی طور پر بلوچ جہد آزادی کو آگے لے جانے کی کوشش کرتے تو یہی طبیب اکبر (ڈاکٹر حئی ) طبیب اصغر اس کو ایک نہ ایک طریقے سے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتے اوّل سیاسی ورکروں کو پیسے بنگلے، ٹھیکے اور گاڑی، عیش و عشرت کی زندگی کی لالچ دیتے اگر کوئی ان لالچ میں نہیں آتے تو انکو شہید غلام محمد اور شہید فدا بلوچ کی طرح راہ سے ہٹایا جاتا۔
ایک اور سوال کے جواب میں مڈل کلاس والا محترم فرماتے ہیں کہ اس حقیقت سے سب بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت نہیں کہ جس میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں نا یہاں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور نہ میڈیا آزاد ہے، اس لیئے یہاں ریاستی ادارے مداخلت کرتے رہتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیاں بنائیں، جب تک وہ برسراقتدار رہے وہ پارٹی ان کے بیساکھیوں پر چلتے رہے اور ان کے بعد ان کا خاتمہ ہوا۔ اس نئی پارٹی کے ساتھ بھی تاریخ یہی سلوک رکھے گا۔ بلوچ تاریخ میں پہلا عام سیاسی کارکن تھا جو اپنے کردار کی وجہ سے وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ دوران وزارت اعلیٰ میرے خلاف سرداروں، نوابوں، ملاؤں، کرپٹ سرکاری آفیسروں اور مڈل کلاس کے سیاسی کارکنوں کا ایک مقدس اتحاد بنا اور خوب مجھ سے اس عہدے کا بدلہ لیا گیا کہ ایک عام کارکن کیوں بلوچستان کا وزیراعلیٰ بنا۔ یہ تو سرداروں اور نوابوں کے لیئے ہے۔
اتنا ڈھیٹ پن، خود فرماتے ہیں کہ بغیر پاکستانی خفیہ اداروں کی مداخلت کے کوئی برسراقتدار نہیں آتا لیکن وہ واحد سیاسی کارکن ہے جو اپنے کردار کی وجہ سے بنا۔ یہاں پر صاف کیوں نہیں کہتا کہ دوسرے صرف بوٹ پالش کرتے میں آئی ایس آئی اور ایم کے ساتھ ملکر بلوچ سیاسی ورکروں کی ایک پوری کھیپ کو قتل کروایا۔ اور ساتھ میں تمام بلوچ انٹلیکچوئل ، ڈاکٹرز ، ادیب اور وکلاء جو بلوچ قوم کا کریم تھا، سب کو راستے سے ہٹایا تو جس کے بدلے میں مجھے تین سال کی وزارت اعلیٰ کی کرسی نصیب ہوئی۔
یہاں پے بھی شرم سے عاری کم بخت سرداروں ، نوابوں ،ملاؤں پتہ نہیں کن کنکا نام لیکر ان کو موردالزام ٹہراتا ہے کہ انہوں نے میرے خلاف سازش کی مجھے کرسی سے نیچے اتارا۔ ایسا نہیں کہتا کہ میری مزدوری کا اتنا ہی معاوضہ تھا۔ جو مجھے وزارت اعلیٰ کی کرسی کی صورت میں ملا ۔ حیرانگی اس بات کی ہوتی ہے کہ پھر بھی کہتا ہے کہ سرداروں نے مجھے کرسی سے اتارا۔ پھر وہ کون سا سردار جو اس وقت آپ کی دسترخوان پر آپ کے ساتھ براجمان نہیں تھا؟ سردار ثناء اللہ زہری، سردار بنگلزئی ، نواب شاہوانی اور سردار بزنجو سے لیکر ٹکری خالد لانگو تک اور دوسری جانب انٹر نیشنل ڈرگ مافیا کا سربراہ امام بیل سے لیکر ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ ملا برکت و حیدر محمدحسنی تک سارے آپ کی پارٹی کے لیڈر اور ممبر تھے۔ اور اس دوران بلوچ آزادی کی تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے باقی سارے آئی ایس آئی کے بنائے گئے نئے نواب، سردار، جاگیردار، ملاء سب ایک ہی ڈگر پے تھے اور ہیں ۔ آپ کو وزارت اعلیٰ کا منصب ملنے سے پہلے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کہتا تھا کہ تین سردار کے علاوہ باقی سارے سردار ہمارے ساتھ ہیں۔ اس وقت ان تینوں سرداروں میں سے صرف ایک سردار بچا تھا۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ نال کشی میں ان سب سرداروں ، ملاؤں ، جاگیرداروں ، ٹکریوں ، ڈرگ مافیا کے سربراہوں اور ڈیتھ اسکواڈ کے غنڈوں کی سربراہی آپ ہی کررہے تھے۔ کیونکہ سادہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے آپ کے پاس مڈل کلاس، سیاسی ورکر نجانے کیا کیا کارڈ تھے۔ اور آپ نے جی بھر کے وہ کارڈ بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کی۔
ان تمام حقیقتوں کو جھٹلاتے ہوئے جناب والا اپنے وزارت اعلیٰ کا سہرا نواز شریف اور محمود خان کو بخش دیتا ہے۔ کوئی اس بدبخت سے پوچھے یہ کون سے شہزادے ہیں جو تھالی میں وزارت اعلیٰ یا دوسرے وزارت بانٹتے رہتے ہیں جو خود ایک ایم پی اے یا ایم این اے کی سیٹ کیلئے انکو (جی ایچ کیو ) کی کتنی یاترا کرنی پڑتی ہے۔
ہم دیکھتے ہے اس دوران آب زم زم میں دھلا ہوا یہ سیاسی کارکن کس خوشی یا کس سیالی و رشتہ داری کی بنیاد پر پاکستانی ناپاک فوج کے دھوبی اور حجاموں کی لاشوں کو کندھا دینے کیلئے جہاں کہیں بھی ہو وارد ہوجاتا ہے۔
جب کے اس کے برعکس اسی علاقے میں لال و جوہر شہداء کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، کندھا دینا دور کی بات ہے نامعلوم فرشتوں کا نمائندہ اور سیاسی کارکن کا تعزیتی بیان پڑھنے کو نہیں ملتا۔
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دوران بہت سارے کام کیئے ہیں جنکو گنا نہیں جاتا۔ ہاں جناب والا واقعی بہت سارے کام ہوئے ہیں جنکو گننا کسی کے بس کی بات نہیں اور واقعی آپ کا کیا ہوا کام تاریخ میں نہیں ملتا ہے نہ آگے اس کے ملنے کے امکانات ہیں، کیونکہ اس دوران آپ نے بلوچ نسل کشی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی کہ تاریخ دان نادر چم کش کو بھول جائیں۔ اس دوران خاص کر آپ کے علاقے کے علاوہ پورا مکران بیلٹ میں روزانہ کی بنیاد پر بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں روڈ کناروں اور ویرانوں سے ملتے رہے۔ ان مسخ شدہ لاشوں میں عام سیاسی ورکر ۔ استاد ، انجئنیر ، وکیل اور کاروباری سارے شامل تھے ۔ اور آپ ہی دوران ملازمت و حکمرانی میں یہاں تک پابندی تھی کہ کوئی اپنے جگر کے ٹکڑے کی مسخ شدہ لاش کے اوپر اظہار افسوس کے چند آنسو نہیں بہا سکتے۔ اگر کوئی آنسو بہانے کی کوشش کرتا تو اس کو اغواء کیا جاتا یا طبیب اصغر صاحب اس کو آپکے نامعلوم شہید کر جاتے۔
آخر میں ڈاکٹر مالک (طبیب اصغر ) سے صرف ایک سوال کہ وہ بہادری کے ساتھ آکر اپنے مردہ ضمیر کو زندہ کرکے میڈیا کے سامنے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں بلوچ قوم کا مدد کرے کہ شہید فدا احمد و شہید غلام محمد بلوچ سے لے کر آج تک بلوچ نوجوانوں کی گرتی ہوئی مسخ شدہ لاشوں کے پیچھے کن کی مخبری اور انکی قتل میں کس کی ہاتھ شامل ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔