شیروف مری، بلوچ قوم کا لینن
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
“ہر غیرت مند بلوچ مسلمان کو اپنے سینے پر لینن کا بیج لگانا چاہیئے ۔” شیروف مری
پتہ نہیں کچھ لوگوں کا مرتبہ اتنا بلند کیسے ہوتا ہے کہ منصور قادر کی لکھی گئی کتاب “جنرل شیروف” کو پڑھنے کے بعد میں نے فوری فیصلہ کرلیا کہ اس کتاب کے حوالے سے اپنا اظہار خیال کروں اور بابو شیروف کے بارے میں لکھوں۔ کیونکہ یہ نام میرے لیے ہمیشہ سے ایک جانا پہچانا نام رہا، آخر کیوں نہ ہو، بائیں بازو سے جڑے ہوئے لینن کے “سنگت” بلوچستان اور بلوچوں کےلیے ایک استاد کی مانند سے یاد کیا جائے گا۔ چھوڑیٸے بھئی، اپنی نااہلی کو تسلیم کرنے میں کیا شرمندگی میرے بیان سے باہر اور جب بیان کلام کے مالک ‘شیرو’ اور موضوع شیروف کی طبقاتی (مارکسسٹ ) جدوجہد ہو تو کسی اور کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، میں کیا میری اوقات قلم۔۔۔ سنیں شیرو کو سنیں، بابا جان کو سنیں۔
بلوچستان کی تحریک اور(Colonialism) کی حقیقت اپنی جگہ لیکن حقائق کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، باقی اسکی تفصیل عزیز بگٹی کی لکھی گئی کتاب “بلوچستان شخصیات کے آئینہ میں” میں موجود ہے کہ نفرتیں قابل نفرت کے خلاف تو حق بجانب ہوسکتی ہیں۔ لیکن کوئی قوم بحثیت قوم قابل نفرت نہیں ہوا کرتی۔ مہاتما گاندھی نے ہمیشہ انگریز نو آبادیت کو ناپسند کیا لیکن انگریز قوم سے کھبی نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کے عالمی شہرت یافتہ رہنما جناب نیلسن منڈیلا نے کئی برسوں تک اپار تھیڈ یعنی نسل پرست حکمرانی کے خلاف جدوجہد کی لیکن کھبی بھی گوری اقلیت کو نفرت کا نشانہ نہیں بنایا۔ اسی طرح ہمارے شیروف مری نے کبھی کسی قوم اور زبان سے نفرت نہیں کی۔ بلکہ کوئٹہ میں اپنی ایک اردو زبان کے تقریر کے بعد لوگ اسے کہتے ہیں کہ یہ عوام دشمنی ہیں۔ لیکن ہمارا یہ لینن کا شاگرد جواب دے دیتا ہے کہ زبانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔
شیروف مری عرف بابو جو سات برس تک بلوچستان کے دشوار گزار صحرا بنے ہوئے تھے۔ دو ہزار پانچ سو پچیس روز تک وہ ہر لمحہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ظلم و جبر کے خلاف لڑتے رہے۔ اور ہمارے آج کے نوکر شاہی، بورژوا قوم پرست ںظریات سے تعلق رکھنے والے کو کیا پتہ جدوجہد کی اصل definition بقول لینن کے ”
For The Revolution ,Revolutionary Organization is necessary ”
کیا یہ لڑکے انقلاب لائیں گے، جو ہوٹلوں پر بیٹھ کر ٹیبل پر مکے مار کر انقلاب کی باتیں کرتے ہیں جس سے ٹیبل تو درکنار ٹیبل پر پڑا ہوا چائے کا کپ بھی ٹوٹے۔
آج کے بورژا نیشنلسٹ اور ترقی پسند (Left ) سے جڑے ہوئے لوگوں کو ماننا پڑے گا کہ قومی جدوجہد دراصل طبقاتی جدوجہد کا حصہ ہے۔ “محکوم قومیں” خود ایک کلاس ہیں اور طبقاتی جدوجہد ان کی جدوجہد میں شامل ہے۔ جو صرف طبقاتی جدوجہد کی بات کرتے ہیں وہ ٹریڈ یونینسٹ ہوسکتے ہیں لیکن مارکسسٹ نہیں۔
ایسی قومی جدوجہد جو طبقاتی جدوجہد سے خالی ہو وہ فاشزم ہے۔ اور وہی نظریہ ہمارے اس بزرگ، کماش رہنما شیروف مری کا بھی تھا کہ موجودہ بحران “آئینی بحران ” نہیں موجودہ بحران معاشی، سماجی اور سیاسی ہے۔ اور جب یہ تینوں بحران ایک ساتھ جنم لیتے ہیں تو انقلابی بحران بن جاتے ہیں۔ آج یہ تاریخ کا رحجان ہی نہیں بلکہ ایک فیصلہ ہے کہ ” قومیتیں آزادی چاہتی ہیں اور عوام انقلاب چاہتا ہے”۔ چنانچہ ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑیگا۔ کیونکہ اگر آپ مزدور، کسان اور عوام کو اپنی جدوجہد میں لے کر نہیں چلیں گے تو پھر انقلا ب کون لائے گا؟ بورژا عوامی لیڈر انقلاب نہیں لاتے وہ اپنے ایک یادگار تقریر میں کیا خوب فرماتے ہیں۔
“میرے بھائیو! جب تک اس ملک سے جاگیرداری کا خاتمہ نہ کیا جائے، تب تک اس ملک میں کچھ بھی اچھا نہ ہوگا۔ آج آپ کے ملک کا جاگیر دارانہ نظام اس قدر بوسیدہ ہوچکا ہے کہ وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ آپ اس طبقہ کو نہیں پہچانے، مجھے پتہ ہے کہ یہ طبقہ کس قدر کمینہ اور پلیت ہے اور کتنا ذلیل اور قوم فروش ہے۔ اور یہ سچ ہے آج بلوچستان میں نصیرآباد(ناڑی ) سے لے کر لسبیلہ تک جاگیرداری کا نظام رائج ہے۔ اور غریب کا استحصال روز بہ روز جاری ہے۔ اور یہی حال یہاں کے ملا شاہی کا ہے جیسا کہ لینن کا آفاقی نظریہ ہے کہ جب ریاست کا جبر مذہب کے نام پہ ہوتا ہے تو عوام کی ساری جدوجہد مذہب کے خلاف ہوجاتی ہے جیسا کہ یورپ میں “چرچ” کے ساتھ ہوا۔
ہمارے اس استاد نے مارکسسٹ لٹریچر کو ہر بلوچ مسلمان کے گھر پہنچایا، وگرنہ عام مزدور کو کیا پتہ جدلیاتی اور تاریخی میٹریلزم کیا چیز ہے۔
میرا دعویٰ ہے کہ کہ جنرل شیروف پر لکھی گٸی یہ کتاب منصور قادر کی شیروف مری اور بلوچ قوم دوستی اور وابستگی نے اسے ذمہ داری دی تھی کہ وہ ہم تک پہنچائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔