شعبہ ابلاغیات کی اصل زمہ داریاں اور بلوچستان یونیورسٹی – امجد دھوار

310

شعبہ ابلاغیات کی اصل زمہ داریاں اور بلوچستان یونیورسٹی

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی جس کا قیام جون 1970 میں اس وقت کے گورنر بلوچستان کے جاری کردہ ایک آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا جون 1996 میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بلوچستان یونیورسٹی ایکٹ 1996 کو پاس کیا، اس طرح یونیورسٹی آف آرٹ سائنس، تجارت اور انسانیت کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والی صوبہ کی یونیورسٹی بن گئی۔

میڈیا اینڈ جنرنلزم جس کو پہلے ماس کامونیکیشن کہا جاتا تھا کا قیام جنوری 1987 میں یونیورسٹی آف بلوچستان کیا گیا تھا باقاعدہ 1987 میں شروع ہوا، جس میں ایک چھوٹی فیکلٹی تھی جس میں صرف تین لیکچررز شامل تھے چار ماہ کے بعد 1987 میں سیمی نگمانہ طاہر کو اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ترقی دی گئی اور انہوں نے باقاعدہ طور پر اس شعبہ کا چیئرپرسن کے عہدے کا چارج سنبھال لیا اور جس کا موجود چیرمین فہیم بلوچ ہے۔

کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسے اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین تک بغیر کسی مبالغہ آرائی کے پہنچانا صحافت کہلاتا ہے اور اس کام سے وابستہ لوگوں کو صحافی کہتے ہیں، صحافت سے وابستہ لوگ عوام کو خبروں سے با خبر رکھتے ہیں

اخلاقیات ایک ایسا نظام ہے جو ایک خوشگوار زندگی کی طرف ہمارے رویے کو تشکیل دیتا ہے اخلاقیات کے ذریعے ہم ایمانداری کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

صحافت ہماری زندگی میں ایک اہم قیادت کا درجہ رکھتی ہے، صحافت کسی قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو کسی سے ڈکھی چکی بات نہیں ہے۔

مارچ 2018 کی شروعات تھی، بلوچستان یونیورسٹی میں نئے داخلوں کا اعلان کیا گیا تھا، میں نے پہلے سے یہ فیصلہ لیا ہوا تھا کے میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں ایم اے کرونگا، میں نے اپنے ایڈمیشن فارم سبمٹ کی اور مجھے ٹیسٹ کیلئے ایک تاریخ دیا گیا جب میرا ٹیسٹ ہوا میں کش مکش میں تھا میرا داخلہ ہو گا کہ نہیں خیر وہ وقت بھی آگیا اور میرا داخلہ بھی ہوا، کلاس ہوتے رہے اساتذہ سے بھی تعارف ہونے لگا، کچھ استاد تو اتنے کاپریٹو تھے جن سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا، مگر کچھ ان میں ایسے تھے جنہوں نے اپنا ایک گینگ بنایا ہوا تھا۔ جو اسی ضد میں ہوا کرتے تھے کے یہ ڈپارٹمنٹ ان کی اپنی زاتی ملکیت ہے۔ مگر یہ ان کے خام خیالی کے سوا اور کچھ بھی نہ تھی، یہ وہ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں میں سر یوسف مسی جیسے مہربان استاد تھے یہ وہ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں جئیند ساجدی جیسے محنتی استاد بھی ہیں، یہ وہ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں زاکر حسین جیسے استاد بھائی کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ وہ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں عمران جیسے کاپریٹو استاد بھی ہیں۔ یہ وہ ڈپارٹمنٹ ہے جس میں خلیل اور مالک جیسے جگری دوست بھی موجود ہیں، مگر اکثر اس ڈپارٹمنٹ میں چیئرمین کی طرف سے کٹھ پتلی وی سی جاوید اقبال کو خوش کرنے کیلئے اسکورنگ کی جاتی تھی۔ جب بھی وی سی کی طرف سے کوئی فنکشن کیا جاتا تھا، کلاس کے طلباء و طالبات کو کیمرہ اور مائیک ہاتھ میں تھمایا جاتا تھا، مگر یہ دیکھنے کو نہ ملا کہ اصل صحافی تو عوام کا ترجمان ہوتا ہے، پھر چیرمین کیوں ایسا نہیں کرنے دے رہے۔

میں نے کلاس کے دوستوں سے یہی مشورہ کیا کے چیئرمین سے بات کرینگے کے آپ وی سی کے لابی کے خلاف ہمارے ہاتھ میں کیمرہ اور مائیک تھما دیں، مگر سارے دوست اس بات سے انکاری تھے ان کی انکار کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ سیمسٹر سسٹم کہیں ہم فیل نہ ہو جائیں۔ دوستوں نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا اور میں تنہا رہ گیا، مگر میں نے کبھی بھی ہمت نہ ہاری، خود ہی اس مشن پر کام کرنے لگا، مگر مجھے بھی یہ دن دیکھنے پڑے کہ مجھے بھی سیمسٹر میں 3 gp سے 2.5 دیا گیا۔ مگر پھر بھی چپ نہ رہا میرے لئے ڈپارنمٹ کی طرف سے مشکلات بڑھاتے گئے، میں ان کا مقابلہ کرتا گیا کیونکہ میرے ساتھ منظور بلوچ جیسے استادوں کی سوچ تھی، جئیند ساجدی جیسے استادوں کا حوصلہ تھا، خیر یہ وقت گزرتا گیا وہ دن بھی آیا جب بلوچستان یونیورسٹی میں اسکینڈل کیس سامنے آیا، جس میں کٹھ پتلی وی سی جاوید اقبال، کنٹرولر جاوید اقبال، سیدہ مینگل اور ان کی لابی سرعام شامل تھی، جو سیف اللہ جیسے گاڈ شوٹرز کی سرپرستی کرتے تھے۔

جنرلزڈم ڈپارنمٹ کا فرض تھا کے وہ وی سی کے پیچھے کیمرہ اور مائک اٹھا کر ڈپارٹمنٹ چیئرمین کو خوش کرنے کے بجائے اسکینڈل کے خلاف کالم لکھتے، پروٹیسٹ کرتے یا کیمرہ اٹھا کر کوئی پیکچ بناتے، مگر ایسا ممکن ہی نہ تھا یہاں تو شروع ہی سے زرد صحافت چل رہا ہے تو یہ صحافی آگے جا کر قوم کی ترجمانی کرنے کی بجائے بوٹ پالشی کو ترجیح دینگے۔

مگر ایک خاص بات یہ ہے کہ صحافت میں ان لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، جو نوسرباز ہوتے ہیں اصل صحافی وہ ہوتا ہے جو کسی کو بلیک میل کرنے یا بوٹ پالشی سے کتراتا ہو، صحافت کو ممکنہ حد تک ایمانداری سے کیا جائے یہ صحافت کا سب سے بڑا معیار ہے، صحافت کو معاشرے کی تیسری آنکھ اور جموریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے سماج کی اچھائیاں اور برائیاں صحافت کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔

وہ صحافی جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کام کرے اور منفی آلہ کاروں کا ساتھ دے، وہ صحافی صحافت کے نام پر ایک کالا ٹیکا ہے مفادات سے پاک اور ایک آزاد صحافی ہی ایک سچا صحافی ہوتا ہے، صحافی اپنے پیشے کے ساتھ سچا ہو تو اس کا ہر ایک لفظ اثر رکھتا ہے لیکن جب وہ مفادات کی خاطر اپنے قلم اور ضمیر کو بیچ دے تو اس کی چیخیں اور سچائیاں بے اثر ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔