شمال مشرقی شام میں ترکی کے زیرقبضہ سرحدی قصبے میں ہفتے کو ہونے والے کار بم دھماکے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب ہزاروں کردوں نے ترکی کے قبضے کے خلاف وسیع علاقے میں احتجاج کیا ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کار بم دھماکے سے تل ابیاد کا قصبہ لرز کر رہ گیا۔ یہ قصبہ ان متعدد علاقوں میں شامل ہے جہاں پہلے کردوں کا کنٹرول تھا جبکہ گذشتہ ماہ ترکی نے سرحد پار حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
ترکی کا حملہ روکنے کے لیے گذشتہ ہفتے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا لیکن اس کے باوجود کار بم دھماکہ ہو گیا۔ ترکی نے 9 اکتوبر کو شام کے علاقے پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں آٹھ برس سے جنگ کے شکار شام میں ایک تازہ انسانی المیے نے جنم لیا۔
تل ابیاد میں اے ایف پی کے نمائندے نے ہفتے کو ملبے سے بھری سڑک کے وسط میں دو موٹرسائیکلوں کو آگ لگی ہوئی دیکھی۔ لوگوں کے ایک گروپ نے ایک متاثرہ شخص کو اٹھا کر پک اپ ٹرک کے پچھلے حصے میں ڈالا۔ اس شخص کا جسم بری طرح جل چکا تھا۔ اس دوران سڑک کے کنارے پر کھڑی باحجاب خاتون حیرت زدہ دکھائی دی۔
ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ حملے میں 13 شہری مارے گئے ہیں۔ ترکی نے دھماکے کا الزام کرد جنگجوؤں پر لگایا ہے۔
شام میں جنگ پر نظر رکھنے والی انسانی حقوق کی لندن میں قائم تنظیم نے کہا ہے کہ دھماکے میں 14 افراد ہلاک ہوئے جن میں ترکی نواز جنگجو اور شہری شامل ہیں۔
کرد قیادت میں قائم شامی ڈیفنس فورسز کے ترجمان مصطفیٰ بالی نے ایک ٹویٹ میں کہا زمین کے مالکوں کو بے دخل کرنے اور ترکی میں مقیم شامی پناہ گزینوں کو دوبارہ شمال مشرقی شام میں آباد کرنے کے لیے ترکی کی فوج اور اس کے ساتھ کام کرنے والے جنگجو اب تل ابیاد میں شہریوں کو ہدف بنا کر افراتفری پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا جو علاقے ترکی کے زیرانتظام ہیں وہاں ہونے والے شہریوں کے جانی نقصان کا ذمہ دار بھی ترکی ہے۔
اس دوران کرد اکثریتی شہر کمیشلی میں ہزاروں شامی کردوں نے شامی علاقوں پر ترکی کے قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
مظاہرین نے ماضی میں نیم خود مختار علاقے اور اس کے جنگجوؤں کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ انہوں نے ترکی کے قبضے کے خلاف نعرے لگائے۔