دروازہ – عمران بلوچ

386

دروازہ

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دروازے پر دستک ہوتی ہے، ناجانے کون ہے جو اتنی صبح صبح نیندحرام کرنے آیاہوگا، کون ہو بھئی؟ باہر سے آواز اتی ہے جو کسی بوڑھے کی آواز لگتی ہے دروازہ کھول دیں میری بات سن لیں مجھے بات کرنی ہے، چیخنا ہے، چلانا ہے، پر میری بات کوئی نہیں سن رہا ہے۔

دروازہ کھولاتو ایک بوڑھا شخص سرخ کپڑے زیب تن کیئے کھڑا تھا، جسم کے خدوخال سے یہی لگ رہا تھا کہ شاید بیمار ہے۔ کافی تیز بخار بھی تھا، جسکی وجہ سے جسم لرز رہا تھا۔ میں نے ان سے پوچھنا چاہا کہ کون پر وہ اندر ہی داخل ہوا۔ میری بات سنو میں بس چند الفاظ بولنے آیا ہوں، اگر اپ سمجھ جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں چلا جاونگا۔ مجھے بلا کا غصہ آیا کہ اتنی صبح صبح نیند حرام کی اب اسکی بورنگ آپ بیتی بھی جھیلنی پڑے گی اور اس کے لیئے پریشان بھی تھا ایک بوڑھا شخص ہے، بیمار بھی ہے، تو میں نے طے کر لیا کہ اب اندر اگیا ہے چلو سنتے ہیں۔

جی بابا بولیں۔ بیٹا میں بہت سے ملکوں، وادیوں، گاوں، شہروں سے سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ جہاں جہاں مجھے بھوک، افلاس، غریب عورتوں پہ ظلم، انسانیت کا ننگا ناچ غرض جہاں بھی کوئی منفی سوچ ملی میں اس سماج، اس درندہ نما میدان میں کود پڑا۔ جنہوں نے مجھے اپنایا وہ سرخرو ہوئے، تاریخ نے انہیں سنہرے الفاظ میں یاد کیا اور اج تک کرتے آرہے ہیں اور غضب کی بات یہ ہے جنہوں نے مجھ سے منہ پھیر لیا وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ آج تک انہیں کوئی جانتا نہیں۔ پر پچھلے کئی عرصوں سے میں اپکے ملک، شہر، گاوں، گلی کوچوں میں سفر کررہا ہوں پر اب تک مجھے کوئی اپنانے کو تیار نہیں۔ ڈرو خوف کی وجہ سے یہاں کے لوگ ایک ایسی فضاء میں جی رہے ہیں جہاں سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے، جب میں یہاں پہنچا تو میں جوان تھا، میں نے یہاں بغور جائزہ لیا تو یہاں طبقاتی لوگوں نے ایک ایسا معاشرہ بنا دیا ہے کہ جو بااثر ہے اسے ہمشہ کے لیئے بااثر سمجھا گیا ہے، لوگوں نے انہیں ایک ایسی ہستی بنا دی ہے کہ وہ ہمیشہ امر رہیں گے، یہاں پر عورت کو جوتی کی نوک پر رکھا گیا ہے بلکہ انہیں انسانیت سے نکال کر ایک گوشت کا ٹکڑا ہی سمجھا جارہا ہے۔ یہاں پر گنتی میں آنے والے دانشوروں کو پاگل اور پاگلوں کو اقتدار پر بٹھا رکھا ہے۔ یہاں جس نے حق کی بات کی یا تو سولی پر چڑھا دیا گیا یا زندانون کے اندھیری کوٹھیوں میں زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ یہاں سیاست کے نام پر منافقت کا کارڈ استعمال ہورہا ہے۔ یہاں عالم دین ممبر پر بیٹھ کر جنت کے حوروں کے جسم کی خدوخال کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو دانتوں کے درمیان دبوچتا ہے اور زبان کو ہونٹوں پر پھیرتا ہے۔ سائنس فلسفہ معاشرتی مباحث پر بات کرنے والے طالب کو دہشتگرد اور سو لوگوں کو مسجد مندر چرچ میں خودکش بمبار کو خدا کا مجاہد سمجھا جاتا ہے۔ یہاں میر و سردار، چوہدری، وڈیرہ فرشتہ اور فرشتہ ابلیس سمجھا جاتا ہے۔ یہاں محافظ زمیندار جاگیردار کاروبار کر رہا وہیں منشیات بارڈر پر سے گذرتا ہے۔ یہاں ماہر طبیعیات اپنے کمرے میں شفاء کی دعاوں کو چسپاں کرتا ہے۔ یہاں استاد قلم کے و علم کے بجائے بیٹھی طالبہ کو خوابوں کی رانی بنانا چاتا ہے۔ یہاں دانش گاہ کو کوٹہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں صحافت کا قلم اس وقت چلتا ہے جب اس میں ٹوکن گرتا ہے۔ یہاں باپ اپنے بیٹے کو بڑے عہدے پہ فائز کرنے کی کوشش میں ہے، وہیں بیٹی کی بلوغت کے انتظار میں رہتا ہے۔ یہاں ماں بیٹے کو سونے کے چمچ میں کھانا کھلانا چاہتی ہے تو بیٹی کو باورچی خانے میں بیٹے کا جھوٹا کھلاتی ہے۔ یہاں بیوی سے بیٹے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے، وہیں شوہر خود کوٹھوں سے اٹھ کر پڑوسی کی بیوی بیٹی پر نظر بھی رکھتا ہے۔ یہاں مرد کا دھبہ غسل سے دھل جاتا ہے تو عورت کا قبر تک اسکی پیشانی پہ چسپاں ہے۔ یہاں مزدور کو نوکر اور نوکر کوکتا اور کتے کو راجہ کہا جاتا ہے۔ یہاں خدا کو جلال وقہار کہا جاتا ہے پر رحیم و کریم کا دور تک کوئی نشاندھی نہیں کرتا۔

انہیں باتوں کے ساتھ وہ گرتے گرتے بچا، میں اسے سنبھالنا چاہا تو وہ خود ہی سنبھلتے بولا بیٹا اپنا معاشرہ سنبھالو، وہ مجھ سے بھی بھی زیادہ ڈگمگاہ رہا ہے۔ سورج کی کرنیں دروازے سے اندر داخل ہورہی تھیں۔ میں نے پوچھا بابا اپ بیمار لگتے ہو چلیں میں اپکو ہسپتال لے چلوں تو وہ بول بیٹھے نہیں بیٹا اگر اس سماج نے مجھے اپنایا تو میں جوان ہوجاونگا ورنہ کسی اور ملک بستی گاوں شہر چلا جاونگا، میں کبھی نہیں مرتا نہ ہی بیمار ہوتا ہوں، میں خود بھی زندہ رہتا ہوں مجھے اپنا نے والوں کو بھی زندہ رکھتا ہوں میں ہوں انقلاب۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔